خضر زندہ نہیں زمانہ اسلام سے پہلے فوت ہو گئے:
اور جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نقیب اولیاء اور تمام اولیاء سے واقف ہیں تو یہ بے اصل ہے اور صحیح وہی ہے جو محققین نے کہا کہ وہ زمانہ اسلام سے پہلے انتقال کر چکے تھے۔ کیونکہ اگر وہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں زندہ ہوتے تو ان کا فرض تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جہاد کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر اور تمام دنیا والوں پر واجب کر دیا تھا اور چاہیے تھا کہ وہ آپ کے حضور میں مکہ و مدینہ میں موجود رہتے اور ان کا صحابہ کے ساتھ شریک جہاد ہونا اور دین کے متعلق ان کا اعانت کرنا ان کے لیے اس سے بدرجہ ہا بہتر تھا کہ وہ کفار میں رہ کر کشتی کے بچانے کا کام کرتے اور جب مشرکین میں رہ کر ان سے روپوش نہیں رہتے تو بہترین امت سے کیونکر مخفی رہ سکتے تھے۔
((لَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیّاً ثُمَّ اتِّبَعْتُمُوْہٗ وَلَا تَرَکْتُمُوْنِیْ لَضَلْلُتُمْ۔))
’’اگر موسیٰ( علیہ السلام ) اس وقت زندہ ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کا اتباع کرتے تو تم ضرور گمراہ ہو جاتے۔‘‘
اور جب عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول ہو گا تو اسی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کریں گے۔پھر اس رحمت کی موجودگی میں مسلمانوں کو خضر علیہ السلام وغیرہ کی کیا ضرورت ہے؟
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:
((کَیْفَ تَھْلِکُ اُمَّۃَاَنَا اَوَّلُھَا وَعِیْسیٰ فِی ْ آخِرَھَا۔))
’’وہ امت کیونکر ہلاک ہو سکتی ہے جس کے ابتداء میں میں ہوں اور اس کے آخر میں عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے۔‘‘
پس جب یہ دو بزرگ نبی جو ابراہیم اور موسیٰ اور نوح علیہم السلام کی طرح اولوا العزم اور افضل الرسل ہیں اور خصوصاً سید ولد آدم محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم امت کے خواص و عوام سے چھپ کر
|