نیت قلبی معتبر ہے:
( ا) اگر نیت قلبی کے خلاف زبان سے کچھ کہے تو اعتبار نیت قلبی کا ہو گا، لفظوں کا نہیں ۔ (۲) اگر محض زبان سے نیت کرے، مگر دل میں نہ ہو تو باتفاق ائمہ مسلمین یہ ناجائز ہے، کیونکہ:
نیت کا لغوی مفہوم:
نیت قصد و عزم کی جنس سے ہے۔ عربی کا مقولہ ہے:
((نَوَاکَ اللّٰہَ بِخَیْرٍ اَیْ قَصَدَکَ بِخَیْرٍ۔))
’’خدا نے تیرے ساتھ بھلائی کی نیت کی یعنی بھلائی کا ارادہ کیا۔‘‘
استشہاد بالحدیث:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
((اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلَّ امْرِیٍٔ مَّا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھَجْرَتُہٗ اِلٰی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ اِلیٰ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ھَجْرَتُہٗ اِلیَ الدُّنْیَا یُصِیْبُھَا اَوْ اِلیٰ امْرَئَ ۃٍ یَتَزَوَّجُھَا فَھَجْرَتُہٗ اِلیٰ مَا ھَاجَرَ اِلَیْھَا۔)) (بخاری ومسلم)
’’عمل نیتوں پر موقوف ہیں اور ہر ایک کو اپنی اپنی نیت کا پھل ملے گا، تو جس کی ہجرت اللہ کی اور اس کے رسول کی جانب ہو، وہ مہاجر الی اللہ و الرسول ہے، اور جس کی ہجرت حصولِ دنیا یا تزویج عورت کی غرض سے ہو تو وہ اسی چیز کا مہاجر ہے جس کے لیے اس نے ہجرت اختیار کی۔‘‘
اس حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد باتفاق ائمہ اربعہ وغیرہم نیت قلبی ہے، لسانی نہیں اور سبب حدیث بھی اسی پر دال ہے، کیونکہ
مہاجر ام قیس رضی اللہ عنہا کا واقعہ:
اس کا سبب یہ ہے کہ ایک عورت بنام ام قیس رضی اللہ عنہا سے شادی کی خاطر ایک شخص نے
|