سوار کر لیا کرتے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ مسائلِ حلال و حرام میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ تمام امتِ محمدیہ سے بڑھ کر عالم ہیں اور قیامت کے دن تمام علماء سے ایک قدم آگے ہوں گے۔ انہی فضائل کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اہل یمن کی طرف اپنا خاص مبلغ و داعی،فقیہ ومفتی اورحاکم بنا کر بھیجا اور بسا اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو سیّدنا ابراہیم علیہ السلام سے تشبیہ دیاکرتے۔ جنہیں خدائے عزوجل نے اپنے کلام پاک میں خلیل اللہ اور امام الناس کے القاب سے ملقب فرمایاہے۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تشبیہ دینے کی غرض سے ﴿اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًا﴾ کے بجائے قدرے تصرف سے یوں فرماتے:
((اِنَّ مُعَاذًا کَانَ اُمَّۃً قَانِتاً لِلّٰہِ حَنِیْفاً وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔))
’’بلاشبہ معاذ رضی اللہ عنہ لوگوں کے پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداربندے ہیں جو محض خدا کے ہوچکے ہیں اورجماعت مشرکین سے نہیں ہیں ۔‘‘
وصیتِ جامع:
پھر اس قدر فضائل کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ خاص وصیت فرمائی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک جامع وصیت ہے، اور فی الواقع کسی عقلمند کو اس کی جامعیت سے انکار نہیں ہو سکتا۔ مزید برآں کہ یہ وصیتِ قرآنیہ کی تفسیر بھی ہے۔ اس سے زیادہ اور کیاخوبی ہو سکتی ہے؟
وجوہاتِ جامعیت:
باقی رہی اس کی جامعیت، تو اس کے دلائل کو یوں سمجھ لیجیے کہ انسان کے ذمے دو حق ہیں : (۱) حقو ق اللہ(۲) حقوق العباد۔ پھر ان حقوق میں وقتاً فوقتاً کسی خلل اور نقصان کا واقع ہو جانا لازمی چیز ہے، جو کبھی کسی امر کے ترک اور کبھی کسی امرِممنوعہ کے ارتکاب کی صورت میں ظہور پذیر ہوئی ہے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جامع کلمہ ارشاد فرمایا کہ
|