مکہ سے مدینہ منورہ کی ہجرت کی تو اس کا نام مہاجر ام قیس پڑ گیا۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر خطبہ ارشاد فرمایا اور یہ حدیث بیان فرمائی۔ تویہ اس کی نیت قلبی تھی (لسانی نہیں )۔
جہری نیت بدعت ہے:
جہر بالنیت باتفاق مسلمین نہ واجب ہے، نہ مستحب اور نہ کسی مسلمان کے نزدیک جہراً نیت نہ کہنے والے کی نماز باطل ہوتی ہے بلکہ جاہر بالنیت جب اسے حکم شرع سمجھ کر کرے تو وہ بدعتی (مخالف شریعت)، جاہل ،گمراہ ، مستحق تعزیر و عقوبت ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ اور توضیح (مسائل) کے بعد بھی ہٹ دھرمی پر قائم رہے، خصوصاً جب کہ رفع صوت کے باعث اپنے ساتھی کے لیے موجب تکلیف بنے، یا بار بار کہے، تو سخت تعزیر کے قابل ہے۔
اہل اسلام میں سے کوئی شخص بھی صلوٰۃ جاہر سے صلوٰۃ مخافت کی افضلیت کا قائل نہیں ، خواہ امام ہو یا مقتدی یا منفرد۔
سری نیت کے عدمِ وجوب پر ائمہ کا اتفاق:
آہستہ تلفظ بالنیت کرنا بھی ائمہ اربعہ اور جملہ ائمہ مسلمین کے نزدیک واجب نہیں ،نہ کوئی امام طہارت و صلوٰۃ روزہ حج و غیرہ میں تلفظ بالنیت کا قائل ہے۔
زبان سے کسی نماز کا نام لینا کیا ضروری ہے؟:
نمازی کو زبان سے یوں کہنا بھی ضروری نہیں کہ میں ظہر یا عصر پڑھ رہا ہوں ، یا امام یا مقتدی ہوں ، یا فرض یا نفل پڑھ رہا ہوں وغیرہ وغیرہ، بلکہ دل میں نیت کا (موجود) ہونا کافی ہے اور خدا تعالیٰ تو پہلے ہی علیم بذات الصدور ہے۔
غسل و وضو اور روزہ میں نیت:
ایسے ہی غسل جنابت وغیرہ میں محض نیت قلبی ہی کافی ہے ۔ نیت روزہ کا بھی یہی حال ہے۔کسی کو رمضان شریف میں زبان سے (( اَنَا صَائِمٌ غَدًا)) ’’میں کل روزہ رکھوں گا‘‘ کہنا باتفاق ائمہ کرام واجب نہیں بلکہ دل میں نیت کا ہونا کافی ہے۔
|