صاحب قبر (نبی یا ولی ) سے سوال کرنے کی دو صورتیں
صورت اول:
اگر تم صاحب قبر وغیرہ سے اس لیے درخواست کرتے ہو کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ تم سے زیادہ مقرب بارگاہ الٰہی ہے اور اعلیٰ رتبہ رکھتا ہے تو یہ بات حق ہے مگر ایسا حق کہ اس سے باطل معنی مراد لیا گیا ہے کیونکہ اگر وہ تم سے زیادہ مقرب درگاہ ہے اور اعلیٰ مرتبہ رکھتا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ اس پر تم سے زیادہ نوازش کرے گا اور تم سے زیادہ درجات اس کو عطا کرے گا۔ یہ معنی نہیں کہ جب تو اس کو پکارے گا تو اللہ تعالیٰ تیری حاجت سے بڑھ کر اور بہتر پوری کرے گا جس صورت میں تو خود براہ راست اللہ تعالیٰ کو پکارے کیونکہ اگر تو مستحق عذاب ہے یا تیری دعا معصیت پر مبنی ہونے کے باعث مسترد ہونے کے قابل ہے تو انبیاء اور صالحین ہرگز اس میں تیری اعانت نہیں کریں گے اورنہ وہ ایسی شے کے حصول کی کوشش کر سکتے ہیں جو اللہ کے نزدیک مبغوض اور حرام ہے اور اگر تیری دعا مبنی بر معصیت نہیں تو اللہ تعالیٰ کی ذات سب سے بڑھ کر رحیم اور مہربان ہے اور وہ دعا قبول کرنے کے اہل ہے۔
دوسری صورت:
اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ صاحب قبر جب اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا جلد تر اور بہتر صورت میں قبول کرے گا بہ نسبت اس کے کہ تم خود براہ راست دعا کرو تو یہ دوسری قسم ہے اس سے تمہاری مراد یہ ہے کہ تم ان سے طلب نہیں کرتے اور نہ بالاستقلال دعا کرتے ہو بلکہ ان سے یہ دعا کرتے ہو کہ تمہارے لیے اللہ سے دعا کریں جیسے زندہ سے کہا جاتا ہے کہ میرے لیے دعا کیجیے اور جس طرح صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے التجائے دعا کیا کرتے
|