Maktaba Wahhabi

134 - 485
تھے۔ پس اس طرح کی درخواست زندہ سے تو مشروع ہے جیسے اوپر بیان ہو چکا لیکن انبیاء اور صالحین جن کا انتقال ہو چکا ہے ان سے کہنا مشروع نہیں کہ ہمارے لیے دعا کیجیے، نہ یہ کہناکہ ہمارے لیے اپنے رب سے سوال کیجیے اور نہ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے کسی سے بھی ایسا کہناثابت ہے اور نہ ائمہ میں سے کسی نے اس کو جائز رکھا ہے نہ اس کے جواز میں کوئی حدیث وارد ہے۔بلکہ بخاری میں یوں آیا ہے کہ جب خلافت فاروقی میں امساک باراں کی شکایت ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے استسقاء کی دعا کرائی اور کہا: ((اَللّٰھُمَّ اِنَّا کُنَّا اِذَا اَجْدَبْنَا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنِبِیِّنَا وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمَّ نَبِیِنَا فَاسْقِنَا۔)) ’’اے اللہ ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب کبھی امساک باراں ہوتا تھا تو ہم اپنے نبی کو تیرے پاس وسیلہ لاتے تھے تو باران رحمت ہو تا۔ اب اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ پکڑتے ہیں اے اللہ! ہم پر مینہ برسا۔‘‘ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس جا کر یہ نہ کہا کہ یا رسول اللہ! ہمارے لیے اللہ سے باران رحمت کی درخواست کیجیے یا ہمارے لیے اللہ سے دعا کیجیے یا جو قحط اور مصیبت ہم کو پہنچی ہے اس کی شکایت آپ کے پا س لے کر آئے ہیں یا اس قسم کی اور کوئی بات کسی صحابی نے ہرگز ہرگز نہیں کی بلکہ یہ ایک بدعت ہے جس کی کتاب و سنت میں قطعاً کوئی دلیل نہیں ۔ صحابہ کا دستور صرف یہ تھا کہ جب روضہ مقدس کی زیارت کے لیے جاتے تو آپ پر سلام کرتے اوردعا کا ارادہ ہوتا تو مزار مقدس کی جانب منہ کر کے دعا نہ کرتے بلکہ قبلہ رو ہو کر خدائے واحد لا شریک سے دعامانگتے جیسا کہ دوسری جگہ قبلہ رو ہو کر دعا مانگا کرتے تھے۔ دلیل اس کی وہ حدیث ہے جو موطا وغیرہ کتب احادیث میں مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ۱۔ ((اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثْناً یُعْبَدُ اِشْتَدَّ غَضْبُ اللّٰہِ عَلیٰ
Flag Counter