ایسا برا جانتا ہو جیسے آگ میں دھکیل دیے جانے کو۔‘‘
نیز آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ جلالت نشان ہے:
((ذَاقَ طَعْمَ الْاِیْمَانِ مَنْ رَضِیَ بِاللہ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْناً وَبِمُحَمَّدٍ رَّسُوْلاً۔)) (مشکوٰۃ)
’’جو شخص خدا کی ربوبیت،دین اسلام کی حقانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر رضا مند ہو اس نے ایمان کا مزہ پا لیا۔‘‘
حلاوت ایمانی کا وجد ذوق اور مدارج ثلاثہ:
ایمانداروں کو حلاوتِ ایمانی کی جو شیرینی و مزہ حاصل ہوتا ہے ،اس میں لوگوں کے تین درجے ہیں :
مثال:
کسی شخص کو صرف اسی قدر معلوم ہو کہ وجد و ذوق کیا چیز ہے، مثلاًشیخ نے اسے بتایاکہ ذوق ایک درجہ ہے توا س نے محض سن کر اسے سچ سمجھا، یا عارف لوگوں نے اپنے متعلق بعض باتوں کی اطلاع دی تو وہ سن کر ان تک پہنچ گیا، یاان بزرگوں کے احوال کے آثار و علامات (مثلاً کرامات وغیرہ) دیکھیں جن سے ذوق پر دلالت ہوتی ہے۔
دوسرا درجہ:
اس شخص کا ہے جس نے (علم کے بعد) اس کا مشاہدہ ومعائنہ بھی کرایا ہو۔
مثالیں :
مثلاًاہلِ معرفت اور اہلِ صدق و یقین کے احوال میں سے ایسے احوال کا مشاہدہ کیا ہو جن سے پتہ چلتا ہو کہ یہ بزرگ صاحب وجد ذوق ہیں تو اس شخص نے اگرچہ فی الحقیقت وجد و ذوق کی حالت نہیں پائی،تاہم ایسی چیز تو دیکھ لی جو اس حالت پر دال ہے،البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ اس شخص سے اقرب الی الحقیقہ ہے جس نے اسے دیکھا نہیں ،محض اس کی خبر حاصل کی ہے اور کراماتِ اولیاء کو دیکھ کراس کے وجود کی دلیل پکڑی ہے۔
|