ساتواں رسالہ:
اَلْوَصِیَّۃُ الصُّغْرٰی
سوال:… امام ابو العاصم قاسم بن یوسف بن محمد سبتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد فقیہ و امام،عالم و فاضل، بقیۃ السلف، قدوۃ الخلف، علم و معرفت کے عجیب و غریب رموز و اسرار کو نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان کرنے والے اور بلادِ مشرق و مغرب کے میرے تمام ملاقاتیوں سے سب سے بڑے علامہ تقی الدین ابو العباس احمد بن تیمیہ رحمہ اللہ (خدا تعالیٰ ہم پر ہمیشہ ان کی برکات جاری و ساری رکھے) سے درخواست کی کہ ازرہِ کرم
(۱) مجھے ایسے امرکی وصیت فرمائیں جس سے میرے دین و دنیا دونوں درست ہو جائیں ۔
(۲) علمِ حدیث کے متعلق مجھے ایسی کتاب کی طرف رہنمائی فرمائیں جس پر پورا پورا اعتماد ہو۔ علیٰ ہذا القیاس دیگر علومِ شرعیہ کے متعلق بھی اسی طرح رہنمائی فرمائیں ۔
(۳) اور ایسے علم کا پتہ دیں جو ادائے قرض و واجبات کے بعد تمام اعمالِ صالحہ پر فوقیت رکھتا ہو۔
(۴) جو کسب و کاروبار میرے لیے تمام ذرائعِ معاش پر ترجیح رکھتا ہو، بیان فرمائیں ۔ مختصراً بطور اشارات جواب کافی ہے۔ طوالت کی ضرورت نہیں ۔ عزوجل آپ کو ہر بلا سے محفوظ و مصئون رکھے۔
والسلام الکریم علیہ و رحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔
جواب:… شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے یوں جواب دیا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ سب سے پہلی چیز یعنی وصیت کا جواب یہ ہے کہ وصیت کی حقیقت کو سمجھنے اور اس کی اتباع کرنے کے لیے میری دانست میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت سے زیادہ فائدہ مند اور نافع ترکوئی وصیت نہیں ہو سکتی۔
|