کا واقعہ قرآن میں منقول ہے۔ یہ تقسیم قولی و اعتقادی بھی ہے ۔ علیٰ ہذا القیاس احوال و افعال میں بھی لو گ چار قسم کے ہیں ۔
عوام و صوفیہ کے احوال و افعال کی چار قسمیں
قسم اول:
سب سے بہتر اور درست حالت اس مومن کی ہے جو خدا کے مامورات کو بجا لاتا ہے، محظورات کو ترک کرتا ہے، اور مقدر سے کوئی مصیبت پیش آ جائے تو صبر کرتا ہے۔لہٰذا اس وقت وہ امر الٰہی اور دین و شریعت کا پابند ہوتا ہے اور اس پر خدا سے امداد کا خواستگار ہوتا ہے، جیسا کہ کلام پاک میں ہے:
﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن﴾ (الفاتحۃ :۴)
’’ ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھی سے امداد چاہتے ہیں ۔‘‘
اگر کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو توبہ و استغفار کرتا ہے، اپنی بد اعمالیوں پر تقدیر کو حجت نہیں ٹھہراتا، اور نہ رب کائنات پر مخلوق کا (حق و) حجت سمجھتا ہے۔بلکہ تقدیر پر ایمان لاتا ہے اور احتجاج بالقدر کا انکار کر دیتا ہے جیسا کہ سید الاستغفار والی صحیح حدیث میں آیا ہے کہ انسان یوں کہے:
((اَللّٰہُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا عَلیٰ عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوْئُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔ )) (بخاری ومسلم)
’’خدایا! تومیرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو میرا خالق اور میں بندہ ہوں ، اپنے مقدور بھر میں تیرے عہد و پیمان اور وعدے پر قائم ہوں ، اپنی
|