فصل (۱۶): مشہور مزارات
رہے یہ مشہور مقابر و مزارات تو ان میں سے بعض قطعاً فرضی ہیں مثلاً دمشق میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور اویس قرنی کی قبر، لبنان میں حضرت نوح علیہ السلام کی قبر، مصر میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبر، غرض کہ شام و عراق او رمصر اور دیگر ممالکِ اسلامیہ میں بے شمار قبریں ایسی ہیں جو محض فرضی ہیں ۔ اسی بنا پر بہت سے علماء جن میں عبدا لعزیز کنانی بھی ہیں ۔ اس کا ثبوت ملتا ہے مگر بڑی جستجو و کاوش کے بعد مسلمانوں کی اپنی قبروں سے یہ بے اعتنائی ذرا بھی تعجب انگیز نہیں کیونکہ ان کی حفاظت، معرفت اور ان پر قبوں اور مسجد کی تعمیرشریعتِ اسلام میں مقبول نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باتوں سے منع فرمایا ہے جو آج کل مبتدع ان قبروں کے باب میں کرتے ہیں مثلاً صحیح مسلم میں جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
((سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم قَبْلَ اِنَّ مَنْ کَانَ بِخَمْسٍ وَھُوَ یَقُوْلُ اِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوْا یَتَّخِذُوْنَ الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ فَاِنِّیْ اَنْھَاکُمْ عَنْ ذٰلِکَ۔))
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پانچ دن پہلے یہ فرماتے سنا: تم سے پہلے لوگ قبروں کو مسجد بناتے تھے ، میں تمہیں اس سے منع کیے دیتا ہوں۔‘‘
اور فرمایا:
((لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ والنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِھِمْ مَسَاجِدَ۔)) (بخاری)
’’یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد قرار دے لیا۔‘‘
ائمہ اسلام متفق ہیں کہ ان عمارتوں کا قبروں پر بنانا، انہیں مسجد قرار دینا، ان کے نزدیک
|