کیوں نصیحت کارگر نہیں ہوتی۔ پوچھو ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ کہہ دیں گے اللہ! کہہ دو پھر تم خدا سے کیوں نہیں ڈرتے۔ پوچھو! تمام کائنات کی حکومت و ملکیت کس کے قبضہ قدرت میں ہے؟ وہ کون ہے جو دوسروں کو پناہ دیتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا؟ کہیں گے اللہ، تو کہہ دو: پھر تم پر کون سا جادو چل جاتاہے (کہ راہِ راست سے منحرف ہو جاتے ہو)۔
اسی لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمْ مُّشْرِکُوْن﴾ (یوسف:۱۰۶)
’’خدا پر ایمان لانے کے باجود اکثر لوگ مشرک ہوتے ہیں ۔‘‘
سلف صالحین میں سے بعض نے اس کی تفسیر یوں فرمائی ہے کہ اے پیغمبر! آپ کے دریافت کرنے پر خدا کو زمین و آسمان کا خالق تسلیم کرنے کے باوجود اس کے ساتھ غیر اللہ کی بھی عبادت کرتے ہیں جو سراسر منافی ایمان ہے۔
قسم دوم:
بعض قضا و قدر کا اقرار مگر امر و نہی شرعیہ کا انکار کرتے ہیں ۔ یہ لوگ یہود و نصاریٰ سے بھی بڑھ کر کافر ہیں ۔ کیونکہ انہیں ملائکہ اور رسولوں کا اقرار تھا جو دنیا میں خدا تعالیٰ کے اوامر و نہی لے کر آئے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ بعض پر ایمان لاتے اور بعض سے انکار کر دیتے۔ اس کے باوجود خدا نے انہیں کافر ٹھہرایا۔ چنانچہ ارشاد ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًااُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا وَ اَعْتَدْنَا
|