((فَاَضْلُ النَّاسِ مَنْ لَّمْ یَرْتَکِبْ سَبَبًا حَتّٰی یَمِیْزَ لِمَا تَجْنِیْ عَوَاقِبُہٗ۔))
’’سب سے بہتر وہی شخص ہے جو کسی کام کو سوچے سمجھے بغیر اسے ہرگز نہ شروع کرے۔‘‘
غیر کے عیب سے اپنے قصور کی اصلاح:
۱۳۔ پہلے یہی تصور پوری طرح کسی دوسرے کے متعلق کر کے دیکھیے، پھر دوسرے کو ہٹا کر اسی جگہ خود اپنی ذات کو رکھ کر اسے اپنا نشانہ و مطمح نظر بنائے اور اس کے ما لہ وما علیہ اس کی ابتدا و انتہا ،آغاز و انجام، فوائد و نقصانات کا تصور کر دیکھے، تو ہر چیز اسے شیشہ ہو جائے گی کیونکہ کسی چیز کا حکم وہی ہوتا ہے جو اس کی نظیر وہم مثل کا ہوتا ہے۔
مطالبات ِنفس پر دین وعقلِ سلیم سے مشورہ:
۱۴۔ مطالباتِ نفس کا پہلے خود مطالعہ کرے پھر ان سب کو اپنے دین و عقلِ سلیم کے سامنے پیش کر کے ان سے رائے دریافت کرے تو دونوں یہی مشورہ دیں گے کہ یہ ردی و فضول اور بالکل بے فائدہ چیز ہیں ۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول:
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،انسان کو جب کوئی عورت بھا جائے اور خوبصورت اور پسند لگے،تو اس کی غلاظت و گندگی کے تصور سے اس کا خیال ترک کرے اور یہ قول احمد بن حسین( متنبی) کے اس قول :
((لَوْفَکَّرَ الْعَاشِقُ فِیْ مُنْتَھٰی حَسِبَ الَّذِیْ یَسْبِیْہِ لَمْ یَسْبِہٖ۔))
’’اسیرِ حسن کو انجامِ حسن کا پتہ چل جائے تو کبھی اس کے دام میں اسیر نہ رہے۔‘‘
سے کئی درجہ بہترہے،کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی نظر حالتِ حاضرہ پر ہے اور شاعر کی نگاہ امرِ متاخر پر۔
|