رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاواسطہ دے کر سوال کر نا:
بعض جاہل یہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے لگو تو میرا واسطہ دے کرسوال کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک میری بڑی حرمت ہے ۔‘‘
یہ روایت موضوع اور سفید جھوٹ ہے، اہل علم میں سے کسی نے اس کو روایت نہیں کیا ہے اور نہ یہ روایت مسلمانوں کی کسی معتبر کتاب میں لکھی ہے۔ اگر کسی میت میں یہ فضیلت ہوتی کہ بار گاہ کبریا میں اس کا واسطہ دے کر دعا کی جا سکتی تو بے شک سب سے مقدم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فضیلت حاصل ہوتی اور اگر اس سے کچھ فائدہ کا حصول متصور ہوتا تو سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے انتقال کے بعد آپ کا واسطہ دینا اپنا دستور العمل ٹھہراتے(لیکن نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی یہ فضیلت کبھی بیان فرمائی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی آپ کے نام کا واسطہ دے کر دعا کی)۔
خلاصۂ کلام:
اس تمام تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قول صریح گمراہی ہے اور اگر فی الواقع کسی شیخ طریقت نے ایساکہا بھی ہو تو یہ اس کی غلطی اور غلط فہمی ہے۔ اور اگر وہ مجتہد ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی اس غلطی کو معاف فرمائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ لیکن وہ شیخ طریقت یا مجتہد انبیاء علیہم السلام کی طرح معصوم نہیں ہے کہ اس کے قول کی اتباع کی جائے ! اللہ تعالیٰ کا یہ قول اس بارے میں فصل الخطاب کا حکم رکھتا ہے:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ (النساء:۵۹)
’’اگر تم کسی بات میں جھگڑ پڑو تو اس اختلاف کو مٹانے اور اس کا فیصلہ کرنے کے لیے اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
|