﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلَا یَمْلِکُوْنَ کَشْفَ الضُّرِّعَنْکُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًااُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا﴾ (بنی اسرائیل:۵۶،۵۷)
’’اے محمد! کہہ دیں ، جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر خدا مقرر کر رکھا ہے ان کو پکارو( جس کا کچھ بھی فائدہ نہیں )کیونکہ یہ اشخاص نہ تو تمہاری تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کی طرف منتقل کر سکتے ہیں ۔ یہ اشخاص جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب تعالیٰ کا تقرب ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہو جائے اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ بے شک تیرے رب کا عذاب ڈرنے کے قابل ہے۔‘‘
علمائے سلف کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو حضرت مسیح و حضرت عزیر علیہم السلام اور ملائکہ کو معبود سمجھے ہوئے ہیں ۔[1]بارگاہِ عزت میں بھلا مشائخ کی کیا مجال ہے کہ اس قسم کا کلمہ منہ سے نکالیں ؟ حالانکہ سید الاولین و الآخرین حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے کسی صحابی سے یہ نہیں کہا کہ جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو مجھ کو پکارو۔ بلکہ اس کے برعکس اپنے چچا زاد بھائی ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ تاکید فرمائی کہ ’’ اللہ تعالیٰ کا لحاظ رکھو، وہ بھی تمہارا لحاظ رکھے گا، اللہ تعالیٰ کا لحاظ رکھو۔ اس کو ہر وقت اپنے سامنے پاؤ گے، خوشحالی کے وقت میں اس کے ساتھ پہچان حاصل کرو (اس کی عبادت اور اس کوپکارنے میں مشغول رہو) سختی کے وقت میں وہ تم کو نظر انداز نہیں فرمائے گا۔ جب تمہیں کوئی سوال کرنا ہو تو اللہ تعالیٰ سے سوال کرو اور مدد مانگنی ہو تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔‘‘[2]
|