رائج کیں جن کی خدا نے اجازت نہیں دی اور وہ چیزیں حرام کیں جنہیں خدا نے حرام نہیں ٹھہرایا۔ اور یہ اہل جاہلیت و مخالفین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہے جن کی مذمت خدا نے سورۂ انعام و اعراف وغیرہ میں بیان فرمائی، کیونکہ انہوں نے دین میں اللہ کے ممنوعات کو مشروع، حلال کو حرام اور محرمات کو حلال ٹھہرا لیا تھا، اس لیے خدا نے ان کی مذمت و عیب گوئی فرمائی۔
مومنوں کا دین:
اسی لیے اہل ایمان یہ کہتے چلے آئے ہیں کہ احکامِ خمسہ کا ایجاب و استحباب، تحلیل و تحریم اور کراہت صرف خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیے جائیں ۔ لہٰذا واجب وہی ہے جسے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم واجب فرمائیں ، مستحب صرف وہ ہے جس کو خدا اور رسول مقرر فرمائیں ، اور حلال و حرام اور مکروہ بھی وہی ہو سکتے ہیں جنہیں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم حلال و حرام اور مکروہ ٹھہرائیں ۔
تنازع اور رجوع الی اللہ والرسول صلی اللہ علیہ وسلم :
جس میں علماء کا تنازع ہو جائے اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴾ (النساء:۵۹)
’’اے ایمان والو! خدا اور رسول اور امیروں کی اطاعت کرو۔ کسی مسئلہ پر نزاع پڑ جائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف لوٹاؤ، بشرطیکہ خدا اور قیامت پر تمہارا ایمان ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی اچھا ہے۔‘‘
جاہل مفتی کی گوشمالی:
اور جو شخص جاہل ہو کر اور ائمہ کے متفقہ مسائل کے خلاف فتویٰ صادر کرے، اسے روکا
|