وہ روایت ہے جس کو اہل سنن نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح الاسناد کہا ہے کہ ’’ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں میرے لیے دعا کیجیے کہ مجھے آنکھیں بخش دے۔آپ نے اس کو حکم دیا کہ وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے بعد یہ کہے کہ ’’بار الٰہا! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیرے نبی الرحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنا کر تیری طرف توجہ کرتا ہوں ۔ یا محمد ! یا رسول اللہ! میں آپ کو وسیلہ بنا کر اپنے رب تعالیٰ کی طرف اپنی حاجت کے بارے میں متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ اس کو پورا کرے۔ یا اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔‘‘ [1]
اس کا ملخص یہ ہے کہ سائل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو وسیلہ بنا کر بارگاہِ الٰہی جل ثنا میں اس کو شفیع لایا اور اس میں اللہ تعالیٰ سے اس بات کی استدعا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت یعنی دعا کو اس کے حق میں قبول فرمائے۔
مخلوق کا واسطہ دے کر توسل چاہنا:
یہ( ایک اندھے کی حدیث کا )واقعہ بعینہٖ ان دوسرے واقعات کی طرح ہے جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے توسل کیاکرتے تھے۔لیکن کسی کا یہ کہنا کہ ’’بار الٰہا! میں تجھ سے بحق ملائکہ یا بحق تیرے رسولوں اور انبیاء کے یابحق فلاں رسول کے یا بحق بیت الحرام وغیرہ سوال کرتا ہوں ‘‘ اس قسم کی دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ و تابعین میں سے کسی سے بھی منقول نہیں ۔بلکہ بہت سے علماء مثلاً امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب امام ابو یوسف رحمہ اللہ وغیرہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ان الفاظ میں دعا کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اس میں کسی مخلوق کا واسطہ دے کر اور اس کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا ہے، لیکن سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی قسم کھانا جائزنہیں اگرچہ وہ اس کو قضائے حاجت کا ایک
|