سے پیدا ہوجاتی ہے،چنانچہ وہ قرآن اس حال میں سنتے ہیں کہ دماغ کہیں ہوتا ہے تو دل کہیں اور ہوتا ہے اور زبان لغومیں مشغول ہوتی ہے، لیکن جونہی تال و سر کی آواز کان میں پڑ جاتی ہے، زبان رک جاتی ہے،جسم پر سکون طاری ہو جاتا ہے، خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے سننے اور اس پر وجد کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔
جو کوئی اس قسم کے سماع کے جواز و عدم جواز پر بحث کرتا ہے اور اسے گانے پر قیاس کرتا ہے جو عید وغیرہ کی خوشی کے موقعوں پر عورتیں گایا کرتی تھیں تو وہ سخت غلطی کا ارتکاب کرتا ہے۔ دراصل وہ اہل فلاح اور اہل خسران کے راستوں میں سرے سے فرق و امتیاز ہی نہیں کر سکا ہے۔ کہاں یہ گانا اور کہاں وہ صدر اول میں عورتوں کا عید وغیرہ میں سادہ گانا؟
پھر جو کوئی اس سماع میں اس حقیقت سے بحث کرتا ہے کہ وہ دین کا ایک جز ہے یا متقین و مقربین کا سماع اور اہل یقین کے اعمال میں سے سالکوں کا راستہ ہے تو اس کی گمراہی اور بھی زیادہ سخت ہے۔ایسے شخص کی مثال بالکل اس آدمی کی ہے جو علم کلام کے محمود یا مذموم ہونے کی بحث میں نفس کلام پر گفتگو کرتا ہے، اسے اسم فعل حرف تقسیم کرتا ہے، یا خاموشی کی فضیلت ثابت کرکے علم کلام کی مذمت کرتا ہے یا گفتگو کے جائز و مباح ہونے سے علم کلام کی تائید کرتا ہے، حالانکہ ظاہر ہے کہ یہ بحثیں اصل موضوع سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں بلکہ سراسر جدل و مناظرہ کی پیداوار ہیں ۔
قوالی کا رواج کس دور میں ہوا؟
اس مسئلہ کی حقیقت یہ ہے کہ خیر القرون میں حجاز،شام،یمن، مصر، مغرب، عراق اور خراسان وغیرہ کہیں بھی اہل اصلاح و تقویٰ اس قسم کے سماع کو پسند نہیں کرتے تھے، تالیوں ،ڈول، بانسری، یا رباب پر ہرگز کوئی گانا نہیں سنتا تھا بلکہ اس عہد میں یہ چیز سرے سے مشہور ہی نہ تھی۔ دوسری صدی ہجری کے اواخر میں یہ ظاہر ہوئی اور جب ظاہر ہوئی تو ائمہ دین نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
|