فصل (۲) : ’’معصیت ‘‘ اور اس کا غلط و صحیح مفہوم
جو یہ کہے کہ آدم علیہ السلام نے گناہ نہیں کیا تو وہ قرآن کا تکذیب کنندہ اور مستحقِ توبہ ہے۔ توبہ کرے تو بہتر ہے ورنہ قابلِ گردن وزنی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ عَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَ ہَدٰی﴾ (طہ:۱۲۱،۱۲۲)
’’آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو (راہِ صواب سے) بھٹک گیا، پھر خدا نے اسے برگزیدہ بنا کر توبہ قبول کی اور ( اپنی اطاعت کا) راستہ دکھایا۔‘‘
معصیت کا صحیح مفہوم:
امر شرعی کی مخالفت کا نام معصیت ہے۔ جو شخص امر الٰہی کی (جس کے متعلق اس نے اپنے رسول بھیجے اور کتابیں نازل فرمائیں ) مخالفت کرے، وہ اس کا نافرمان ہے، اگرچہ وہ بھی خدا کی قضا و قدر میں داخل ہے۔
معصیت کا غلط مفہوم اور تردید:
ان لوگوں کے خیال میں تقدیر الٰہی سے نکلنے کا نام معصیت ہے۔ اگر یہی معصیت ہے تو ابلیس و فرعون، قوم نوح و قوم عاد و قوم ثمود اور جملہ کفار بھی نافرمان نہیں ہیں کیونکہ وہ تقدیر الٰہی میں داخل کریں ۔
جبریہ کو منوانے کا عجیب طریقہ:
حجیت تقدیر کے قائل کو مار پیٹ کر خوب ذلیل کیا جائے۔ اگر چیں بہ جبیں ہو اور ظلم کا
|