فصل …1
مسئلہ سماع کی بحث کا فیصلہ تین اصول یا قواعد پر موقوف ہے‘ یہ قواعد ایمان وسلوک کے اہم ترین قواعد میں سے ہیں ‘ جو کوئی اپنا مسلک ان قواعد پر استوار نہیں کرتا تو یقین کرناچاہیے کہ اس کے مسلک کی عمارت ٹھوس بنیادوں پر نہیں بلکہ وہ ریت پر قائم ہے اور ہر لمحہ گر جانے والی ہے۔
پہلا قاعدہ:
ذوق‘ حال‘ وجد اصل ہے یا کوئی دوسری چیز اصل؟ ذوق و حال اور وجد حاکم ہے یا وہ کسی دوسرے حاکم کا محکوم؟ یہ بات صاف نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ گمراہی میں پڑ گئے۔
نام نہاد صوفیہ کی گمراہی ہی اصلاً جہل جہالت سے پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے ذوق و حال کو حاکم قرار دے رکھا ہے، حسن و قبح اور صحیح و فاسد کی تمیز کا اسے پیمانہ بنا رکھا ہے‘ اسے حق و باطل کے مابین تصور کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کتاب وسنت سے دور جا پڑے اور اس سے اعراض کرنے لگے۔
انہوں نے علم اور نصوص کو اصل قرار نہیں دیا‘بلکہ اذواق و مواجید کو حاکم مان کر ان کے تابع فرمان ہو گئے‘نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ فساد کا بازار گرم ہوگیا‘ ایمان کے آثار مٹ گئے اور سلوک کی صحیح اور حقیقی راہیں گم ہو گئیں ۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ ریاضتوں ‘ مجاہدوں ا ور زہد میں اس لیے داخل ہوئے تھے کہ نفس کی خواہشات اور شہوات سے آزاد ہو جائیں ‘لیکن ہوا یہ کہ وہ معمولی خواہشوں سے نکل کر سخت ترین خواہشوں مبتلا ہوگئے، ادنیٰ شہوات سے کٹ کر شدید شہوات کا شکار ہو گئے،
|