دوسری وجہ:
دوم بلحاظ مداومت وعبادات یعنی ایسے فعل پر مداومت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی فعل کے بالکل مخالف ہو۔ یہ باتفاق ائمہ بدعت ہے، خواہ کسی کو اس میں زیادہ نیکی کا گمان ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ بعض متقدمین نے عیدین میں اذان و اقامت ایجاد کی اس لیے اسے منع کردیاگیا اور ائمہ اسلام نے بھی مکروہ سمجھا۔ ایسے ہی اگر سعی ( بین الصفا وا لمروۃ ) کے بعد طواف کی دو رکعتوں پر قیاس کر کے دور کعت نماز پڑھے(توا س نے بدعت ایجاد کی)۔
بعض متاخرین کی مخالفتِ سنت:
بعض متاخرین شافعیہ نے اسے مستحب سمجھا ہے اور بعض متاخرین حنابلہ نے حاجی کے لیے دخولِ مسجد الحرام کے وقت افتتاح تحیۃ المسجد کو مستحب سمجھا ہے مگر یہ دونوں فعل خلاف سنت ہیں ۔
فعل سنت:
سنت تو یہ ہے کہ محرم طواف سے افتتاح کرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دخول مسجد کے وقت خود کیا، مگر مقیم، جو طواف کے سو ا محض ارادۂ نمازسے جائے، اس کا یہ حکم نہیں ۔
تکمیل دین و اتمامِ نعمت:
غرض کہ خدا نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی امت کے لیے دین کو کامل کر کے اتمامِ نعمت فرما دیا۔ (اب) جو شخص کسی عمل کو از خود واجب و مستحب ٹھہرا لے جسے خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واجب و مستحب نہیں ٹھہرایا وہ غلطی پر ہے۔ جیسا کہ جو شخص خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مکروہ اور حرام کردہ فعل کو خود حرام و مکروہ ٹھہرا لے تو غلطی پر ہے۔ لہٰذا اصل حقیقت یہی ہے کہ حرام وہی ہے جسے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم حرام کریں اور دین وہی ہے جسے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشروع فرمائیں ۔
جہال کا دین:
جو ان دونوں سے نکل جائے، وہ ایسے گروہ میں داخل ہوا جس نے شرع میں وہ چیزیں
|