ایک بے مروت انسان اپنے حسب منشا کرے گا خواہ اس کی مروت معدوم اور ختم ہی کیوں نہ ہو جائے، تو کہاں یہ مروت اور کہاں وہ جس کے متعلق امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
امام شافعی رحمہ اللہ کی مروت:
اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ ٹھنڈے پانی سے میری مروت خاک میں مل جائے گی تومیں اسے ہر گزنہ پیوں ۔
خواہشات اور حاکمِ عقل و دین :
پھرچونکہ تمام بہائم کو نظر انداز کر کے جب ایک مکلفِ خواہشات یعنی انسان کو امتحانِ آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور ہر وقت اور ہر ساعت طرح طرح کے حوادث و مصائب بھی اس پر نازل ہو رہے تھے تو خود اس کے اندر دو حاکم تعینات کر دیے گئے: ایک حاکم عقل، دوم حاکم دین، اور اسے حکم دیا گیا کہ خواہش و ہوائے نفسانی کے تمام حوادث ہمیشہ مذکورۂ بالا حکام کی عدالت میں پیش کرتا رہے اور ان کے احکام بجا لائے، نیز جن خواہشات کا انجام بہتر اور خطرہ سے خالی ہو، تو اس کے دفاع کی مشق کرتے رہنا چاہیے تاکہ جن کا انجام مصائب و تکلیف سے بھر پور ہو، اس کے ترک و اجتناب کی مشق ہو جائے۔
مداومتِ شہوات کا نتیجہ:
عقل مند انسان کو اس نکتہ سے ناواقف رہنا بھی نامناسب ہے کہ دائمی شہوت پرستوں پر آخر ایک ایسی حالت طاری ہوتی ہے جس میں کچھ لذت و مزہ نہیں رہتا، اور شہوت رانی ایک پھیکا اور روکھا سا مشغلہ بن کر رہ جاتا ہے،اس کے باوجود ترک نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ ان کے لیے عیش و زندگی کا جز بن چکا ہے، جسے چھوڑنا محال ہے، اس لیے آپ دیکھیں گے کہ ہمیشہ کے شرابی کو اس لذت کا عشرِ عشیر بھی حاصل نہ ہو گا جو گاہے گاہے پینے والے کو حاصل ہوتا ہے مگر طبیعت چونکہ اس کی عادی ہو چکی ہوتی ہے اس لیے وہ ہاتھ دھو کر اپنے مطالبات کے پیچھے پڑ جاتی ہے اور معتاد چیزوں کے حصول کے لیے جان دھڑ کی بازی تک لگانے سے
|