صلوٰۃ و سلام کا مشروع طریقہ:
امام صاحب نے یہ بھی بیان فرمایا کہ مستحب یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبین (ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) کے لیے دعا کرے اور یہی صلوٰۃ و سلام کا مشروع طریقہ ہے۔ نیز یہ کہ ایسا کرنا بھی اہل مدینہ کے لیے ہر وقت مستحب نہیں ،بلکہ اس کا استحباب اس حالت میں ہے جب کہ سفر سے آئے یا سفر پر جائے۔ کیونکہ ایسا کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تحیہ ہے(تحیہ کے معنی ہیں سلام و آداب بجا لانا) لیکن تم جانتے ہو کہ کسی کا تحیہ اور آداب بجا لانے کے لیے ہر وقت آدمی اس کے گھر میں حاضر نہیں ہوتا۔ البتہ سفر سے آئے یا سفر پر جائے تو ایسا کرنا اچھا معلو م ہوتا ہے۔
ابو وہب نے امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ جب آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرنا چاہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرف منہ کرے اور اس کے نزدیک ہو جائے لیکن قبر شریف کو ہاتھ نہ لگائے۔
لفظِ زیارت کی کراہیت اور اس کی حکمت:
امام مالک رحمہ اللہ اس بات کو بھی مکروہ سمجھتے ہیں کہ کوئی یہ کہے’’ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کی۔‘‘ قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک اس کو اس واسطے مکروہ سمجھتے ہیں کہ اس میں زیارت کی نسبت قبر کی طرف کی گئی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:
((اللّٰھم لا تجعل قبری وثنا یعبد اشتد غضب اللہ علی قومٍ اتخذوا قبور انبیائھم مساجد۔)) [1]
’’یا الٰہی! میری قبر کو بت نہ بنا دے جس کی پوجا کی جائے۔اللہ تعالیٰ اس قوم پر غضبناک ہوا جس نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ ٹھہرایا لیا۔‘‘
|