((مَا مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا وَقَدْ کُتِبَ مَقْعَدُہٗ مِنَ النَّارِ وَمَقْعَدُہٗ مِنَ الْجَنَّۃَ فَقِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلَا نَدَعُ الْعَمَلَ وَنَتَّکِلُ عَلیَ الْکِتٰبِ فَقَالَ لَا اِعْمَلُوْا فَکُلُّ مُیَسَّرُ لِّمَا خُلِقَ لَہٗ۔))
’’دوزخ و بہشت میں ہر شخص کے لیے ایک ایک ٹھکانہ درج ہو چکا ہے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہم تقدیر کے بھروسے پر عمل کو خیر باد کہہ کر اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ نہ رہیں ؟ تو فرمایا: عمل کیے چلو، کیونکہ ہر شخص کے لیے وہ عمل آسان کر دیا گیاہے۔‘‘
صحیح بخاری میں یوں بھی آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا:
((یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَرَأَیْتَ مَا یَعْمَلُ النَّاسُ فِیْہِ وَیَکْدَحُوْنَ اَفِیْمَا جُفَّتْ بِہِ الْاَقْلَامُ وَطُوِیَتْ بَہِ الصُّحُفُ فَقِیْلَ فَفِیْمَ الْعَمَلُ فَقَالَ اعْمَلُوْا فَکُلٌّ مَّیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہٗ۔))
’’یا رسول اللہ! لوگوں کی کد و کاوش اور محنت کے متعلق فرمایے (یہ کس لیے؟) کیا ایسے معاملہ میں کوشش جس کے متعلق قلم خشک اور کاغذ تہ کیے جا چکے ہیں لہٰذا عمل سے کیا فائدہ؟ فرمایا: کام کیے چلو!جس کام کے لیے کوئی پیدا ہوا ہے وہ اس کے لیے آسان کر دیا گیا ہے۔‘‘
چھٹی وجہ، علم الٰہی و تقدیر خدائی کے بطلان کا لزوم:
اس قوم سے یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام امور کو معلوم کر کے انہیں اسی صورت پر لکھ دیا جس صورت پر انہیں ہونا چاہیے تھا تو ساتھ ہی یہ بھی اسی خدائے سبحانہ نے تحریر فرما دیا ہے کہ فلاں شخص ایمان لا کر عمل صالح کرے گا، لہٰذا بہشت کو جائے گا اور فلاں آدمی بدکاری و نافرمانی کرے گا، لہٰذا وہ جہنم رسید ہو گا۔ جیسا کہ اس نے اپنے علم سے لکھ دیا ہے کہ فلاں آدمی عورت سے نکاح کر کے جماع کرے گا تو اس کے ہاں بچہ ہو گا، یا یہ کہ فلاں شخص کھائے گا تو
|