یہی وجہ ہے کہ منافقین کے حق میں دعا کرنے سے قطعاً روک دیا گیا، فرمایا:
﴿وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍمِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ﴾ (التوبۃ:۸۴)
’’ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے لیے دعائے رحمت مت کیا کرو اور نہ کبھی اس کی قبر کے پاس جا کر ٹھہرا کرو۔‘‘
لیکن زندہ کے مردہ سے حاجات طلب کرنے اور اس کے ساتھ توسل کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ زندہ کو حکم دیا کہ مردہ کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے اس پر نماز جنازہ پڑھے، اس کے لیے دعائے مغفر ت کرے کیونکہ زندہ کی دعا مردہ کے حق میں باعث رحمت الٰہی ہوتی ہے اور دعا کرنے والے کے لیے بھی موجب اجر و ثواب۔
صحیح بخاری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ثابت ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا سلسلہ عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین قسم کے: اعمال کے صدقہ جاریہ، اس کی علمی خدمت جس سے لوگوں کو اس کے مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا ہے،فرزند صالح جو اس کے حق میں دعا کرے۔
قبروں پر جا کر حاجت طلب کرنے کی تین صورتیں :
جو شخص کسی نبی یا ولی کے مزار پر جائے یاایسی قبر پر جس کے بارے میں اس کا عقیدہ ہو کہ یہ قبر کسی نبی یا ولی یا صالح کی ہے (حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ) اور وہ صاحب قبر سے سائل اور طالب حاجات ہو تو اس کی تین صورتیں ہیں :
اول: ان سے حاجات کا طالب ہو مثلاً جان و مال اور اہل و عیال کی عافیت، ادائیگی قرض،انتقام دشمن وغیرہ مطالبات کے متعلق اس سے سوال کرے جن کے پورا کرنے کی سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو قدرت نہیں ، تو یہ شرک صریح ہے ایسے شخص پر توبہ لازم ہے، اگر اپنے فعل سے تائب نہ ہو تووہ سزائے قتل کا مستحق ہے۔
اگر وہ اپنے فعل کی تائید میں دلیل پیش کرے کہ صاحب قبر قرب الٰہی میں مجھ سے بڑھا
|