Maktaba Wahhabi

285 - 485
سے روشنی اور کلام ظاہر ہوا تھا۔‘‘ فاذا قوبل السماع بلھو فحرام علیٰ الجمیع حرام ’’اگر یہ سماع لہو و لعب کے مقابلہ میں رکھا جائے تو بے شک سب کے لیے حرام ہے۔‘‘ تو شرعاً ایسے آدمی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ شیخ الاسلام نے جواب دیا: الحمد للّٰہ رب العالمین ان اشعار میں بہت بری بات کہی گئی اور جھوٹ بولاگیا ہے۔ان کا آغاز شریعت کی مخالفت سے ہوتا ہے اور اختتام زندیقیت اور الحاد کا دروازہ کھولنے والا ہے۔ ان اشعار میں اس جماعت کے لوگوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی گئی ہے جنہوں نے آگ دیکھی تھی اور جن سے طور پر سے اللہ تعالیٰ نے باتیں کی تھیں ۔ یہ محض شاعری نہیں ہے بلکہ اس گروہ کاخیال ہی یہی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اپنی خود ساختہ ریاضتوں کے ذریعہ سے وہ اس درجہ تک پہنچ سکتے کہ موسیٰ علیہ السلام کی طرح اللہ ان سے ہم کلام ہونے لگے گا۔ اور ایسے لوگ حقیقت میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام میں اپنی خرافات شامل کر کے دوسروں کو گمراہ کرتے اور شیطان کی مدد کرتے ہیں ۔ اللہ سے ہم کلام ہونے کا بعض اہل سماع کا دعویٰ: اس گروہ میں تین قسم کے لوگ ہیں : ۱۔ ایک وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی بڑھ کر اللہ ان سے ہم کلام ہوتا ہے اور یہی اعتقاد وحدۃ الوجود کا مذہب رکھنے والوں کا بھی ہے۔مثلاً مصنف فصوص الحکم(ابن عربی) وغیرہ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ انبیاء سے بڑھ کر ہیں اور یہ کہ ان سے اللہ کا کلام ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ و محمد علیہم السلام سے کہیں زیادہ اعلیٰ و ارفع ہوتا ہے! تو ان
Flag Counter