Maktaba Wahhabi

204 - 485
وسیلہ سمجھ کر اس کا واسطہ دے۔ دو مستحسن طریق دعا: اگر کوئی شخص اپنے اعمالِ صالحہ کے توسل سے دعاکرے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے صالحین کی دعا سے توسل کرے(ان سے دعا کرائے) تو اس میں شک نہیں کہ اعمال صالحہ پر اللہ تعالیٰ نے ثواب دینے کا وعدہ فرمایا ہے (اور اس کی دعا قبول کر لینا بھی ایک قسم کا ثواب ہے) اور صالحین کی دعا زیادہ تر قبول ہوتی ہے، اس لیے کسی شخص کا ان دو طریقوں سے دعا کرنا تو حل بالاسباب ہے۔ چنانچہ غار کی مشہور حدیث میں ان تین آدمیوں نے اپنے اعمالِ صالحہ کے توسل سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو قبول فرمایا۔[1]اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کبریا میں توسل بالانبیاء کے یہ معنی ہیں کہ ان پر ایمان لائے اور ان کی اطاعت کرے، ان پر درود اور سلام بھیجے اور ان سے سچی محبت رکھے، یا ان کی حیات میں ان سے دعا کرائے (جو اب ممکن نہیں ہے کیونکہ انبیاء علیہم السلام وفات پاچکے ہیں لہٰذا اس معنی میں توسل بالانبیاء جائز نہیں ہے)۔ توسل بلا اسباب انبیاء علیہم السلام اور صالحین کی ذات سے توسل کرنے اور ان کے نام کا واسطہ دینے میں حصولِ مطلوب اور قضائے حاجت کا کوئی سبب مقتضی نہیں اور اس لیے یہ توسل بالاسباب میں داخل نہیں ہو گا، اور اس بنا پر اس کا یہ قول قانونِ قدرت(اسباب اور مسببات کا قانون) کے خلاف ہو گا(جس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے قانونِ قدرت کی خلاف ورزی کریں ) اگرچہ انبیاء علیہم السلام کا کتنا ہی بڑا مرتبہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وہ نہایت ہی مقبول بندے ہیں ، لیکن دوسروں کی دعاقبول کرنے کے لیے ان کی ذات یا ان
Flag Counter