فصل…4
رہا رقص ناچ، تو اس کی اجازت نہ اللہ نے دی ہے نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے، نہ کسی امام نے بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا﴾ (بنی اسرائیل:۱۸)
’’زمین پر اکڑ کر نہ چل۔‘‘
رقص بھی ’’مرح ‘ ہی کی ایک قسم ہے۔اور فرمایا:
﴿وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ﴾ (لقمان:۱۹)
’’اپنی چال میں میانہ روی ملحوظ رکھو۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُونَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا ﴾ (الفرقان:۶۳)
’’رحمن کے بندے جو زمین پر سہولت یعنی متانت و وقار سے چلتے ہیں ۔‘‘
مسلمانوں کی عبادت رکوع و سجود ہے، رقص نہیں ہے، رقص کی کبھی کسی نے اجازت نہیں دی، بلکہ نماز تک میں متانت و وقار برقرار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، اگر انسان پر کبھی کوئی ایسی کیفیت طاری ہو جائے جو اسے معتدل و مشروع حالت سے خارج کر دے تو دیکھنا چاہیے کہ اس کا سبب کیا ہے؟ اگر سبب مشروع و مباح ہو، مثلاً قرآن کریم کے سماع سے اس پر حال و وجد طاری ہو جائے تو اسے معذور سمجھا جائے گا لیکن جو کوئی غیر مشروع اسباب پیدا کر کے اپنے نفس پر ایسی کیفیت طاری کر لیتا ہے اورجانتا بھی ہے کہ وہ ایسی کیفیت میں مبتلا ہو جائے گا تو اسے معذور تصور نہیں کیا جائے گا۔ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو یہ جان کر
|