بلکہ بسا اوقات اس سے وہ بات حاصل ہو تی ہے جسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نا پسند کرتا ہے، بلکہ اس سے نفرت رکھتا ہے، اسی لیے سماع کا حکم نہ اللہ نے دیا،نہ اس کے رسول نے، نہ سلف صالحین نے اور نہ صالح مشائخ نے۔
نفس پر آواز کا اثر واقعات و حالات کے اختلاف سے ہوا کرتا ہے، کبھی مسرت پیدا ہوتی ہے تو کبھی غم کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ کبھی غصہ آ جاتا ہے تو کبھی کوئی اور جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ اور اچھی آواز بھی انسان کو اسی طرح مست کر دیتی ہے جس طرح شراب سے مستی پیدا ہو جاتی ہے۔ مستی کے معنی یہ ہیں کہ نفس پر لذت اس درجہ حاوی ہو جائے کہ عقل باقی نہ رہے تو ظاہر ہے کہ ایسی لذت، جس کی موجودگی میں عقل و فہم غائب ہو جائے، کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی، بلکہ الٹا نقصان پہنچاتی ہے، ذکر الٰہی اور نماز سے غافل کر دیتی ہے، عداوت اور پھوٹ پیدا کر دیتی ہے۔
|