Maktaba Wahhabi

368 - 485
لوگ یہودیوں کے مقابلہ میں ( جو صخرہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے) اس کی بے عزتی کرتے تھے۔ لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس غلاظت کو دور کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ کعب احبار کا مشورہ اور فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی ڈانٹ: اور سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے کعب احبار سے مشورہ لیا کہ مسلمانوں کے لیے کہاں مصلیٰ بنایا جائے تو اس نے صخرہ کے پیچھے بنانے کا مشورہ دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ڈانٹ کر فرمایا: اے یہودیہ کے بچے ( ابھی تک) تیرے عقائد میں یہودیت سرایت کیے ہوئے ہے (میں تیرا یہ مشورہ قبول نہیں کروں گا) بلکہ صخرہ کے سامنے بناؤں گا کیونکہ ہمارے لیے مسجدوں کی اگلی جگہ ہیں ۔ اسی لیے ائمہ جب مسجد میں داخل ہوتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تعمیر کردہ مصلیٰ میں نمازپڑھتے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ آپ محراب داؤدی میں نماز پڑھتے۔ لیکن صخرہ کے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے نماز نہیں پڑھی، اور نہ خلفائے راشدین کے عہد خلافت میں اس پر کوئی قبہ تھا بلکہ حضرت عمر، عثمان ، علی، معاویہ رضی اللہ عنہم ، یزید اور مروان کی خلافت میں ننگا تھا۔ صخرہ پر تعمیر قبہ کی وجہ: جب شام پر مروان کا بیٹا عبدالملک حاکم ہوا اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور اس کے مابین فتنہ برپا ہوا تو لوگ حج کر کے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو جاتے۔ اس لیے عبد الملک نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کی غرض سے صخرہ پر قبہ تعمیر کرا کے سردیوں اور گرمیوں میں اس پر غلاف چڑھانا شروع کر دیا کہ لوگ زیار ت بیت المقدس کی طرف رغبت کرنے لگیں اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس اجتماع کرنے سے ہٹ کر اس (عبد الملک) کی جانب متوجہ ہو جائیں ۔ لیکن اہل علم صحابہ و تابعین ’’صخرہ‘‘ کی کوئی تعظیم نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ قبلہ منسوخ ہو چکا ہے، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں ہفتہ عید کا دن تھا، پھر شرعِ محمدی میں یوم جمعہ کے باعث منسوخ ہو گیا۔ تو مسلمانوں کو یہ کسی طرح جائز نہیں کہ یہود و نصاریٰ کی طرح ہفتہ و
Flag Counter