فصل …3
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ: ابو حنیفہ، مالک اور سفیان ثوری وغیرہم رحمہم اللہ ائمہ کی نظر میں یہ چیز امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ سے زیادہ مکروہ اور ممنوع ہے۔ پھر مشہور صالحین میں سے کوئی بھی گانے بجانے میں کبھی شریک نہیں ہوا چنانچہ ابراہیم بن ادھم، فضیل بن عیاض، معروف کرخی، سری السقطی ، ابو سلیمان دارانی وغیرہم رحمہم اللہ میں سے کوئی بھی ایسی کسی مجلس میں نہیں بیٹھا‘ اسی طرح شیخ عبد القادر جیلانی، شیخ عدوی، ابوالبیان، شیخ حیاۃ وغیرہم رحمہم اللہ مشائخ بھی اس سے ہمیشہ دور ہی رہے بلکہ شیخ عبد القادر جیلانی اور ان کے امثال مشائخ کی کتابوں میں اس کی مخالفت ملتی ہے۔
بلاشبہ بعض مشائخ نے اس میں شرکت کی ہے ‘لیکن انہوں نے بھی اسے طرح طرح کی بندشوں سے مقید کر دیا ہے، مثلاً کہا ہے کہ جگہ ایسی ہونی چاہیے، احباب ایسے ہونے چاہئیں ، شیخ ایسا ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ مگر ان مشائخ میں سے اکثر نے آخر عمر میں اس سے توبہ اور کنارہ کشی کر لی تھی، چنانچہ جنید بغدادی رحمہ اللہ جوانی میں سماع کی مجلسوں میں شریک ہوا کرتے تھے، لیکن آخر عمر میں اس سے بالکل کنارہ کش ہو گئے، خود انہی کا قول ہے: جو کوئی قصد اور ارادہ سے سماع میں شرکت کرتا ہے، تو وہ فتنہ میں پڑجاتا ہے، اور جو کوئی اتفاقیہ اسے سن لیتا ہے تو وہ راحت حاصل کرتا ہے۔
اس قول کا مطلب یہ ہے کہ قصد و ارادہ کے ساتھ گانا سننا مذموم ہے لیکن اتفاقیہ سن لینے میں کوئی حرج نہیں ۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ تمام گانے یکساں نہیں ہیں ، حتیٰ کہ وہ اشعار جن میں محبت، وصل، فراق، شوق اور بے اعتنائی وغیرہ باتوں کا ذکر ہے، ان کے معنی
|