Maktaba Wahhabi

243 - 485
سے لوگ قرآن سن کر چلا اٹھتے تھے، اور بہت سے بے ہوش ہوجاتے تھے، اور بعض مربھی جاتے تھے، غرض کہ یہی سماع ایمان کی اصل الاصول ہے، اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مخلوق کے لیے مبعوث کیا ہے تاکہ وہ سب کو ان کے اللہ کا پیغام سنا دیں اور جو کوئی رسول کے پیغام کو سنتا، اس پر ایمان لاتا اور اس کی پیروی کرتا ہے تو ہدایت حاصل کرتا ہے اور کامیابی سے شاد کام ہوتا ہے لیکن جو کوئی اس سے اعراض کرتا ہے تو وہ گمراہ اور بدبخت ہو جاتا ہے۔ مشرکین کا سماع، تالیاں سیٹیاں بجانا: اوپر بیان کردہ سماع کے خلاف تالیوں اورسیٹیاں اور ہاؤ ہو کا سماع ہے۔ یہ سماع مومنین کا نہیں ،مشرکین کا ہے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایاہے کہ: ﴿وَ مَا کَانَ صَلَاتُہُمْ عِنْدَالْبَیْتِ اِلَّا مُکَآئً وَّ تَصْدِیَۃً ﴾ (الانفال:۳۵) ’’بیت اللہ کے پاس ان کی نماز صرف یہ تھی کہ وہ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے۔‘‘ اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ مشرکین تالیوں اور سیٹیوں کی آواز میں ثواب اور اللہ کی خوشنودی کا یقین کرتے تھے اور اس قسم کے سماع کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کبھی جمع نہیں ہوئے بلکہ کبھی ان میں شرکت نہیں کی اور جو کوئی مدعی ہے کہ آپ نے ایسی کسی مجلس میں کبھی شرکت کی ہے تووہ باتفاق جملہ محدثین و اہل علم آپ پر تہمت باندھتا ہے۔ محمد بن طاہر مقدسی نے سماع کے بارے میں ایک حدیث روایت کی ہے اوریہی حدیث ان کے طریقے سے شیخ ابو حفص عمر سہروردی (مصنف عوارف المعارف) نے نقل کی ہے، اس میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک اعرابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اشعار سنائے: قَدْ لَسَعَتْ حَیّۃُ الْھَوٰی کَبِدِیْ فَلَا طَبَیْبَ لَھَا وَلَا رَاقِیْ ’’عشق کے سانپ نے میرے جگر کو کاٹ لیا ہے، اب اس کے لیے نہ کوئی طبیب ہے نہ معالج۔‘‘
Flag Counter