مذاکرہ میں میرے ( ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے) ہاں سن ہی چکے ہیں ۔ اس وقت صرف اتنا کہے دیتا ہوں کہ منقسم علی الابواب تصانیف میں صحیح امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ سے نافع ترین کوئی کتاب نہیں لیکن علم کے تمام اصولوں کو سمجھنے میں تنہا وہ بھی کافی نہیں اور نہ مختلف علوم کے متبحر عالم کا مقصود پورا کر سکتی ہے،کیونکہ اس کے علاوہ دیگر احادیث خصوصاً علم فقہ کے ان مسائل کا علم نہایت ضروری ہے جن کے ساتھ بعض علماء مختص و ممتاز ہیں اور امتِ محمدیہ تو علم کے ہر فن میں پورا پورا حصہ لے چکی ہے جس کا دل خدا تعالیٰ نے نور سے بھر دیا ہے۔
اسے جو بات پہنچتی ہے، اسے اس کے ذریعے سے رہنمائی فرماتا ہے اور جس کا دل اندھا کر دیا ہے اسے جس قدر زیادہ کتابیں میسر ہوتی ہیں اسی قدر اس کی حیرت و ضلالت میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن لبید انصاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
((اَوَ لَیْسَتِ التَّوْرٰۃُ وَالْاِنْجِیْلُ عِنْدَ الْیَھُوْدِوَ النَّصَاریٰ فَمَا ذَاتُغْنِیْ عَنْھُمْ۔))
’’ کیا یہود و نصاریٰ کے ہاں توراۃ و انجیل نہیں ہے تو پھر انہیں کیا فائدہ پہنچایا (جب کہ خود انہیں ہدایت کی ضرورت نہیں )۔‘‘
خاتمہ و دعا:
لہٰذا عزوجل سے التجا ہے کہ ہمیں رشد و ہدایت اور اصلاحِ علم و عمل عطا کرے۔ ہمارے دلوں میں وہ چیز القا فرمائے جس میں ہماری ہدایت ہو۔ ہمیں شرورِ نفسانیہ سے محفوظ و مصئون رکھے۔ اورہدایت کے بعد دل کی کجروی سے بچا کر اپنی بارگاہ سے خاص رحمت نازل فرمائے کیونکہ وہی رحمت عطا فرما سکتا ہے۔
((وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَصَلٰوَاتُہٗ عَلیٰ اَشْرَفِ الْمُسْلِمِیْنَ۔))
|