صخرۂ بیت المقدس کی طرف نماز کا شرعی حکم:
اب جو صخرہ کو قبلہ بنا کر اس کی طرف نماز پڑھے، وہ کافر و مرتد ہے (لہٰذا توبہ کرائی جائے)۔ اگر تو بہ کرے تو فبہا ورنہ سزائے قتل کا مستحق ہے۔ حالانکہ وہ پہلے قبلہ تھا جو منسوخ ہو گیا۔ تو ایسے شخص کی کیا سزا جو کعبۃ اللہ کی طرح اسے قابل طواف بنا دے، حالانکہ غیرکعبہ کا طواف خدا نے مشروع نہیں فرمایا۔
صخرہ کی قربانی:
ایسے ہی جو شخص وہاں گائے بکری ذبح کرنے کے ارادہ سے لے جائے اور وہاں قربانی کرنے کوافضل سمجھے، یا عید کے دن حجامت کروانے اور وہاں عرفہ کی رات وقوف کی خاطر سفر کا ارادہ کرے تو یہ امور بدعت و گمراہی ہیں جن کے ذریعے سے وقوف طواف، ذبح کرنے اور حجامت بنوانے میں بیت المقدس کو کعبہ کے مشابہ کیا جاتا ہے۔جو شخص ان امور کو قربت الٰہی سمجھ کر کرے، اس پر توبہ لازم ہے۔ اگر تائب ہو جائے تو بہتر ورنہ قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ جو صخرہ کی طرف جو بایں اعتقاد نماز پڑھے کہ استقبال قبلہ کی طرح اس کی جانب منہ کر کے نماز پڑھنا بھی باعث قربت ہے ( تواس کا یہی حال ہے)۔
مسجد اقصیٰ کے سامنے مصلّٰی بنانے کی وجہ:
اس لیے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کا مصلیٰ (جائے نماز) مسجد اقصیٰ کے سامنے تعمیر فرمایا: کیونکہ مسجدا قصیٰ پوری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر فرمایا۔ اگرچہ (اب) بعض لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس تعمیر کردہ مصلیٰ کو اقصیٰ کہنے لگ گئے ہیں اور مسلمانوں کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس تعمیر کردہ مصلیٰ میں نماز پڑھنا تمام مساجد کی نمازوں سے افضل ہے۔
فتح بیت المقدس:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یروشلم فتح کیا تو صخرہ پر گندگی کا ڈھیر لگا ہوا تھا کیونکہ عیسائی
|