عیاض رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے پاس کھڑے ہو کر دعا کرنا میرے نزدیک مستحسن نہیں ،بلکہ بہتریہ ہے کہ سلام کر کے چلا جائے۔ مبسوط میں یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص سفر سے لوٹ آئے یا سفر پر جاناچاہے تو کچھ حرج نہیں اگر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے پاس کھڑا ہو کر آپ پر درود بھیجے اور آپ کے حق میں اور شیخین (ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما ) کے حق میں دعا کرے۔
صدرِ اوّل کا دستور العمل:
امام صاحب(امام مالک رحمہ اللہ ) سے کہا گیا کہ اہل مدینہ ہر ہفتے میں بلکہ بعض اوقات ایک ہی دن میں ایک دو دفعہ قبر شریف کے پاس کھڑے ہو کر سلام کرتے اور دعا مانگتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایاکہ ہمارے شہر کے اہل فقہاء اس بات کے قائل نہیں ۔ مجھ تک ان کا کوئی قول نہیں پہنچا اور اس امت کے پچھلے لوگوں کی بھی انہی باتوں سے اصلاح ہو گی جن سے اس امت کے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی ہے اور مجھ تک اس امت کے سلف صالح اور صدرِ اول سے صرف اتنی بات پہنچی ہے کہ جب کوئی شخص سفر سے واپس آتا یا سفر پر جانے لگتا تھا تب وہ ایسا کرتا۔
اہل مدینہ کا طرزِ عمل:
ابن القاسم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اہل مدینہ کو دیکھا کہ جب وہ مدینہ سے نکلتے یا اس میں داخل ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس حاضر ہو کر سلام کرتے ہیں اور میرا اپنا بھی یہی عمل ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ اپنے زمانہ میں مدینہ منورہ کے سب سے بڑے عالم تھے اور مدینہ کے لوگ صحابہ اور تابعین کے عہد میں تمام دوسرے لوگوں سے مشروع اور غیر مشروع کے بارے میں زیادہ واقف تھے۔ان کو اس بات کا علم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے کیا آداب ہیں ؟لیکن تم نے دیکھ لیا کہ امام صاحب اور علمائے مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کر لینے کے بعد قبر شریف کے پاس دعا کے لیے ٹھہرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
|