مثال دیگر:
ایسے ہی اگر حاضر میت کا جنازہ مقصود تھا، خواہ کوئی ہو اور خیال میں مرد تھا مگر معلوم ہوا کہ عورت ہے تو جنازہ صحیح ہے،بخلاف اس کے کہ مقصود کسی خاص شخص کا جنازہ ہو جو اس کے ذہن میں ہے اور جنازہ بھی اسی کا پڑھے، مگر معلوم ہوا کہ کوئی اور آدمی ہے تو اس صورت میں اس نے حاضر میت کا جنازہ نہیں پڑھا۔
یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ تلفظ بالنیت کسی امام کے نزدیک واجب نہیں ۔
منشائے غلطی:
لیکن بعض متاخرین نے مذہب شافعی رحمہ اللہ سے اس تلفظ کی ایک وجہ نکالی ہے جسے جمہور ائمہ شوافع نے غلط ٹھہرایا ہے۔ غلطی یہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے ابتدائے نماز میں کچھ نطق کا ہونا ضروری بتایاہے اور اس غلطی کنندہ نے یہ سمجھ لیا کہ اس سے امام شافعی رحمہ اللہ کی مراد نطق بالنیت ہے اسی لیے تمام شوافع نطق کرنے لگ گئے ہیں ۔
تلفظ بالنیت میں دو قول:
اور تلفظ بالنیت مستحب ہے یا نہیں ، اس میں فقہاء کے دو مشہور قول ہیں :
پہلا قول:
بعض نے تلفظ بالنیت کو مستحب سمجھاہے جیسا کہ اصحاب ابی حنیفہ و شافعی و احمد نے بیان فرمایا، اور تلفظ بالنیت کومؤکد کہا اور نماز روزہ حج وغیر ہ میں اسے مستحب سمجھا ہے۔
دوسرا قول:
اور بعض نے اسے مستحب نہیں سمجھا جیسا کہ بعض اصحاب مالک و احمد وغیرہ کا قول ہے، اور یہی امام مالک واحمد اور دیگر ائمہ سے منصوص ہے۔
قول صحیح:
ابوداؤد نے فرمایا: میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ آپ تکبیر تحریمہ سے پہلے
|