معیت میں جہاد کرنا فرض کر دیا تھا۔چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ﴾ (آل عمران:۸۱)
’’جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس اس کتاب و حکمت کا تصدیق کنندہ رسول آجائے تو اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد کرنی ہو گی۔ فرمایا: کیا تم نے اقرار کر لیا اور اس پر میرے عہد کا ذمہ اٹھا لیا؟کہنے لگے: ہم نے اقرار کر لیا۔ تو فرمایا گواہ رہو، میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول:
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ہر نبی سے اللہ تعالیٰ نے عہد لیا کہ اس کی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر مبعوث ہو جائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور آپ کی مدد کرنا ضروری ہو گا پھر اسے اپنی امت سے عہد لینے کا حکم دیا کہ ان کی زندگی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوں تو انہیں آنجناب پر ایمان لانا اور آپ کی اعانت کرنا ضروری ہو گا۔
صحابہ رضی اللہ عنہم سے رؤیتِ خضر علیہ السلام مذکور نہیں :
صحابہ میں سے کسی نے خضر علیہ السلام کو دیکھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کی آمد کا ذکر نہیں لیا۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عالم تھے اور تلبیس شیطانی کے اثر سے ان کا مقام کہیں بلند و برتر تھا۔
شیطانی فریب:
لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد شیطان نے عام لوگوں کو دھوکہ دیا۔ (کہیں ) نبیوں کی شکل
|