کے متعلق کہا ہے کہ لوگوں نے زبان سے نہیں کہا بلکہ خدا نے یہ ان کے دلوں سے معلوم کیا ہے۔
تلفظ سری میں متاخرین کا اختلاف:
غرض کہ نیت قلبی کا ہونا بلا اختلاف ضروری ہے، اور آہستہ تلفظ بالنیہ کرنا مکروہ ہے، یا مستحب؟ اس میں متاخرین کا باہمی نزاع ہے۔
جہری نیت اور اس کی تکریر منع وغیر مشروع ہے:
لیکن جہر بالنیہ باتفاق مسلمین مکروہ، منہی عنہ اور غیر مشروع ہے۔ یہی حال بار بار نیت کرنے کا ہے۔ اور ان دونوں جہر بلفظ النیہ اور بار بار نیت کرنے میں باتفا ق مسلمین امام و مقتدی اورمنفر د سب برابرہیں ، کسی کو جائز نہیں ، بلکہ ایسے افعال سے انہیں منع کرنا چاہیے، بلکہ جہر بالقراء ۃ منفرد کو بھی غیر مشروع ہے جب کہ دوسروں کے لیے ایذا رسانی کا موجب ہو۔
تعلیم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :
چنانچہ ایک دفعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز پڑھ رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا:
((یَااَیُّھَا النَّاسُ کُلُّکُمْ یُنَاجِیْ رَبَّہٗ فَلَا یَجْھَرَ بَعْضُکُمْ عَلیٰ بَعْضٍ بِالْقِرَائَ ۃِ۔)) (مسلم)
’’ لوگو! تم سب اپنے رب سے سرگوشی کر رہے ہوتے ہو لہٰذا ایک دوسرے کے پاس اونچی آو از سے قرأت مت پڑھو۔‘‘
نماز میں کبھی جہراً ذکر و دعا میں حرج نہیں :
اور مقتدی کے لیے تو باتفاق مسلمین یہی طریقہ ہے کہ آہستہ پڑھے۔البتہ کبھی کچھ ذکر جہراً کر لے تو حرج نہیں جیسا کہ سری نمازوں میں امام کوئی آیت مقتدیوں کو سنائے تو حرج نہیں ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر کی نماز
|