کسی مقام کے لیے سفر نہ کیا جائے۔‘‘[1]
ایک تاریخی واقعہ:
یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بلادِ شام، عراق اورمصر و خراسان کو فتح کیا توانہوں نے کبھی ان مقامات کا قصدنہیں کیا اور نہ ان کی زیارت کے لیے سفر کیا اور نہ ان کو نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کے لیے مخصوص کیا۔ بلکہ وہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اور شریعت کے پابند تھے اور مسجدوں ہی کے آباد رکھنے میں مشغول رہتے تھے ، جن کے حق میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ ﴾ (البقرۃ:۱۱۴)
’’کون ہے ظالم تر اس شخص سے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کی یاد سے روکے۔‘‘
دوسری جگہ ہے:
﴿اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ ﴾ (التوبۃ :۱۸)
’’بے شک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو وہی شخص آباد رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان لایا ہے، نماز کو قائم رکھتا ہے، زکوٰۃ دیتا ہے اور سوائے اللہ کے اورکسی کاخوف دل میں نہیں رکھتا۔‘‘
اور ارشاد ہوتا ہے:
﴿قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ﴾ (الاعراف:۲۹)
|