اپنے کلام میں لفظ فقر سے نفس طریق الٰہی، فعلِ مامورات و ترکِ محظورات، اخلاقِ محمودہ وغیرہ مراد نہیں لیا کرتے تھے۔بلکہ ان کے نزدیک فقر وہ تھا جو غنا کی ضد (الٹ) ہے۔فقراء وہ ہیں جنہیں خداوند تعالیٰ نے اپنے مندرجہ ذیل ارشادات میں بیان فرمایاہے:
﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ ﴾ (التوبۃ:۶۰)
’’مالِ زکوٰۃ فقراء و مساکین کے لیے ہے۔‘‘
﴿لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ:۲۷۳)
’’مالِ خیرات ان فقیروں کے لیے ہے جو اللہ کی راہ میں مشغول ہونے کے باعث کسبِ معاش سے معذور ہو گئے ہیں ۔‘‘
﴿لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ ﴾ (الحشر:۸)
’’(مالِ فے) ان فقراء مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھر بار سے نکال دیے گئے۔‘‘
اور غنی وہ ہے جسے زکوٰۃ لینا حرام ہو، یا جس پر زکوٰۃ واجب ہو، علیٰ ہذا القیاس۔ لیکن چونکہ زہد اختیاری وبے اختیاری میں فقر کا شائبہ بھی تھا کیونکہ بے اختیار وغیر قادر ہونا بھی عصمت کی ایک قسم ہے اور متاخرین نے بھی بسا اوقات معنی زہد کو فقر سے مقرون فرمایا ہے اور زہد بعض اوقات غنا اور بعض اوقات فقر کے ساتھ بھی پایا جاتا ہے۔دیکھئے اکثر صحابہ و سابقین اولین غنی ہونے کے باوجود زاہد بھی تھے۔
زُہدِ مشروع و غیر مشروع:
زُہد مشروع یہ ہے کہ جو چیز قیامت میں بے سود و غیر نا فع ہو اسے ترک کر دیا جائے۔ ہر اس چیز کا ترک کر دینا جو اطاعت الٰہی پر انسان کی معاون و مددگار ہو سکتی ہو،زہد مشروع نہیں بلکہ طاعتِ خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے توجہ ہٹانے والی یعنی فضولیات کا ترک کرنا ہی جائز و
|