سماع اور رقص
سماع اور رقص:
بحر العلوم، شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو العباس احمد بن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ صالحین کا سماع کون ساہے؟ کیا طبلہ و سارنگی پر گانا سننا قرب الٰہی کا موجب ہے؟ کیا یہ اللہ کی اطاعت کا ذریعہ ہے؟اگر نہیں تو کیا یہ حرام ہے؟ اگر نہ اطاعت ہے اور نہ حرام تو کیا یہ مباح اور جائز ہے؟
الجواب:
شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اس سوال کا جواب تحریر فرمایا:
((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔))
اس مسئلہ میں اصل یہ ہے کہ سماع میں فرق و امتیاز کیا جائے۔
سماع کی قسمیں :
سماع کی تمام قسمیں یکساں نہیں ، ایک وہ سماع ہے جس سے دین میں نفع ہوتا ہے اور ایک سماع وہ ہے جو رفع تکلیف اور حرج کے لیے مباح ہے تو اس طرح ایک سماع قرب الٰہی چاہنے والوں کا ہوتا ہے اور ایک سماع لہو و لعب پسند کرنے والوں کا ہوتا ہے۔
جس سماع کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مشروع و مقرر کیا ہے اورجس کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین و سلف امت رحمہم اللہ جمع ہوتے اور اس سے قلب کی پاکیزگی اورنفس کی طہارت حاصل کرتے تھے تو وہ سماع، آیات الٰہی یعنی قرآن مجید کا سماع ہے، یہی سماع انبیائے
|