شخص کو خود اپنی ذات پر تجربہ ہو جاتا ہے کہ جب بھی اس نے مخلوقات سے رشتہ جوڑا، ان سے امید رکھی، حصولِ منفعت و دفعِ مضرت کے لیے ان سے کسی قسم کی امید رکھی، تو اس جانب سے ہمیشہ ذلیل و خوار ہوا اور کوئی مقصد حاصل نہ ہوا، بلکہ کتنی دفعہ ان کی خدمت کی، بعض دفعہ ان پر مال بھی خرچ کیا، کہ مشکل میں کام آئیں گے ،مگر کوئی بھی اسے نفع نہ پہنچا سکا۔ خواہ وہ نفع پہنچانے سے خود عاجز و قاصر تھے یا بے اعتنائی و بے پروائی سے کام لیا۔
بہر صورت جب وہ صحیح صدقِ احتیاج کے ساتھ عزوجل کی جانب متوجہ ہوا اور پورے خلوص کے ساتھ اس کے ہاں فریادی ہوا،تواس نے اس کی دعا قبول فرما کر تمام دکھ درد دور کر دیے اور اپنے وسیع خزانۂ رحمت کے دروازے اس کے لیے کھول دیے۔
ایسا شخص توکل و اخلاص لدین اللہ کی حقیقت کا اس قدر مزہ پاتا ہے جو دوسروں کو نصیب نہیں ہوتا۔ علیٰ ہذا القیاس! جس شخص کو اطاعتِ الٰہی و رضا مندیِ خدا کے اخلاص میں جو مزہ حاصل ہو تا ہے، وہ دوسروں کو نہیں ہوتا۔ اسے ایسے حالات محسوس ہوتے اور ایسے نتائج و فوائد حاصل ہوتے ہیں ،جو بے اخلاص کو نہیں ہوتے۔
جھوٹی محبت اور اس کا انجام:
بلکہ جو شخص سرداری و تفوق کا طالب، خوبروؤں کا دلدادہ،جمعِ مال کا پرستار، اور دیگر ہر طرح کی ہوا و حرص اور خواہشاتِ نفسانیہ میں گرفتار ہو، وہ ان باتوں میں پڑ کر قسم قسم کے غم و فکر، طرح طرح کی پریشانیوں اور مصیبتوں ، گوناگوں دلی تنگی اور دکھوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جن کی تعبیر سے الفاظ قاصر ہیں ۔
بسا اوقات پریشانیوں سے تنگ آکر (اس) جھوٹی محبت و خواہشات سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، کہ قدرے آرام میسر ہو جائے، مگر آرام و خوشی کہاں ؟ہمیشہ رنج و غم اور خطرہ وخوف میں مبتلا رہتا ہے، حصولِ مطلب سے پہلے غمگین و اندوہ گین اور حصول کے بعد اس کے زوال وانقطاع سے خائف رہتا ہے۔
|