فصل (۱):قبورِانبیاء علیہم السلام و صلحاء وغیرہ کے سفر کی نذر ماننا
شد رحال:
صحیحین میں بروایت ابو سعید و ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ مسجدِ حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد کے علاوہ کسی مقام کے لیے سفر نہ کیا جائے۔ یہ حدیث دیگر طرق سے بھی مروی ہے۔ یہ وہ مشہور مقبول حدیث ہے، جس کی صحت، قبولیت اور تصدیق پر علماء کا اجماع ہے۔
عباداتِ مشروط کے لیے بیت المقدس کا سفر مستحب ہے:
عباداتِ مشروط مثلاً نماز، دعا، ذکر، قراء ت قرآن اور اعتکاف کے لیے بیت المقدس کے سفر کے مستحب ہونے پر علمائے اسلام کا اتفاق ہے۔
دعائے سلیمانی:
مستدرک حاکم میں حدیث مروی ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزوں کا سوال کیا: (۱) ایسی حکومت جو ان (سلیمان علیہ السلام ) کے بعد کسی کو مخصوص نہ ہو ۔(۲) ایسا حکم جو فیصلہ الٰہی کے عین موافق ہو۔(۳) بیت المقدس میں محض ارادۂ نماز سے آنے والے کے لیے مغفرتِ ذنوب۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کا طرز عمل:
اسی لیے ابن عمر رضی اللہ عنہما بیت المقدس میں آکر (صرف) نماز ادا کرتے اور پانی بھی نہ پیتے کہ مبادا سلیمانی دعا سے محروم رہیں کیونکہ انہوں نے ’’محض ارادۂ نماز سے ‘‘ کی قید لگائی تھی۔ اس قید کا تقاضا ہے کہ سفر میں اخلاص کی نیت ہو اور یہ کہ اس کی کوئی دنیوی غرض اور بدعت کا ارتکاب نہ ہو۔
(حوالہ طبقات ابن سعد)
|