کے مستحقین میں تقسیم کر دے مثلاً تنگ دست اور محتاج اہل اصلاح کی اس سے دستگیری کرے تو وہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بہتر اور بہت زیادہ مفید ہو گا۔کیونکہ اس کا یہ عمل عملِ صالح شمار کیا جائے گا، جس کا اس کو ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی نیکی کرنے والے کا اجر ضائع نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ اس صدقہ کرنے والے کو ضرور جزا دے گا جو خالص اس کی خوشنودی کے لیے صدقہ دیتا ہے اور مخلوق سے اس کا اجر طلب نہیں کرتا۔ قال اللہ تعالیٰ:
﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی وَلَسَوْفَ یَرْضٰی ﴾ (اللیل:۱۷ تا ۲۱)
’’اس جلتی آگ سے اس بڑے پرہیزگار کو بچایا جائے گا جو اپنے نفس کی پاکیزگی کے لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے۔اس پر کسی کا احسان نہیں جس کا وہ بدلہ اتارنا چاہتا ہے۔ وہ صرف اپنے برتر پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے اور عنقریب (اس کو اس قدر ثواب دیا جائے گا کہ جس سے) وہ خوش ہو گا۔‘‘
اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ ﴾ (البقرۃ:۲۶۵)
’’جو لوگ اپنے مال کو دل کی پختگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ڈھونڈنے کے لیے خرچ کرتے ہیں ، ان کی مثال ایک باغ والوں کی ہے جو ٹیلے پر واقع ہے۔‘‘(ا س سے آگے پوری مثال ہے جس کا ملخص یہ ہے کہ اس کا یہ صدقہ اچھی طرح پھلے اور پھولے گا اور بے انتہا اجر اس کو ملے گا)۔‘‘
صدقہ ابرار:
ابرار (نیک لوگوں ) کے صدقے کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے:
|