Maktaba Wahhabi

208 - 485
فضیلت نہیں ، بلکہ جس مسجد کو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے لیے وہاں بنایا،اس کے قبلہ میں نماز پڑھنا صخرہ کے نزدیک نماز پڑھنے اور دعا مانگنے سے افضل ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صخرہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یروشلم کا شہر فتح کیا تو آپ نے کعب الاحبار سے مشورہ لیا کہ مسلمانوں کے لیے کہاں مسجد بنائی جائے؟کعب الاحبار نے آپ کو مشورہ دیا کہ صخرہ کے پیچھے اس کا تعمیر کرانا مناسب ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے اس طرح مخاطب ہوئے کہ ’’یہودیہ کے بیٹے! ابھی تک تمہارے عقائد اور خیالات میں یہودیت سرایت کیے ہوئے ہے۔ میں تمہارا یہ کہا نہیں مانوں گا بلکہ صخرہ کے سامنے مسجد بنواؤں گا۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے یہ مسجد تعمیر کرائی جس کو عام لوگ ’’مسجد اقصیٰ‘‘کہتے ہیں ۔ آپ نے نہ تو صخرہ کو ہاتھ لگایا اور نہ اس کو بوسہ دیا اور نہ اس کے پاس نماز پڑھی۔ صحیح بخاری میں آپ کا یہ قول منقول ہے کہ جب آپ نے حجر اسود کو بوسہ دیا تو اس طرح گویا ہوئے:’’ اللہ کی قسم ! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھرہے جو نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ ضرر پہنچا سکتاہے اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ تجھے انہوں نے بوسہ دیا تو میں تجھے ہرگز نہ چومتا۔‘‘[1] سلف صالحین کا طرزِعمل: سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب مسجد اقصیٰ میں وارد ہوئے تو وہاں نماز پڑھتے تھے،لیکن صخرہ کے پاس نہیں جاتے تھے۔دوسرے سلف صالحین کا بھی یہی دستور العمل تھا۔اسی طرح وہ حجرۂ شریف جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک ہے یا وہ حجرہ جس میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام مدفون ہیں اور دوسرے حجرے جن میں کوئی نبی یا مردِ صالح مدفون ہے اس کو
Flag Counter