ارشادِ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم :
یہی حدیث ابوداؤد میں بروایت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ موجود ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : ’’اپنے گھر وں کو قبریں مت ٹھہراؤ اور میری قبر کو عید نہ بناؤ۔ مجھ پر درو د بھیجو ، کیونکہ جہاں بھی تم رہو تمہارا درود مجھ کو پہنچ جاتا ہے۔‘‘ [1]سنن میں سعید بن منصورسے روایت ہے، سہیل بن ابی سہیل کہتے ہیں کہ مجھ کو جناب حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے جب کہ وہ بیت فاطمہ رضی اللہ عنہا میں شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے، قبر کے پاس دیکھا اور وہیں سے مجھ کو آواز دی کہ آؤ کھاناکھا لو۔ میں نے عرض کیا میں کھانا نہیں کھانا چاہتا۔ اس کے بعد آپ نے پوچھا کہ تم قبر کے پاس کیوں گئے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کیا۔آپ نے فرمایا: ’’جب تم مسجد میں داخل ہو تو سلام کر و۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’میری قبر کو عید نہ بناؤ اور اپنے گھر وں کو قبریں نہ ٹھہراؤ۔ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ پر اس لیے لعنت کی کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ ٹھہرایا۔ تم مجھ پر درود بھیجو کیونکہ تمہارا درود مجھ کو پہنچ جاتا ہے جہاں بھی تم رہو۔‘‘ تم اور اہل اندلس اس میں برابر ہیں ۔‘‘[2]
روضۂ اطہر اور دوسری قبریں :
اب تم خود سوچ لو کہ جب سیّد الاولین و الآخرین خیر الخلق اجمعین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے حق میں اتنا ہی مشروع ہے جس کی ابھی تصریح کی گئی ہے تو دوسروں کی قبر کی کیا حیثیت ہے؟
|