Maktaba Wahhabi

139 - 485
لہٰذا اس پر تو ائمہ کا اتفاق ہے کہ بیت اللہ کے ان دو رکنوں کو جو حطیم کی طرف ہیں اور کعبہ کی چار دیواری اور مقام ابراہیم اور صخرۂ بیت المقدس اور قبور انبیاء و صالحین میں سے کسی کو بوسہ دینا یا اس پر ہاتھ پھیر کر چومنا خلاف سنت ہے یہاں تک جب کہ منبر رسول موجود تھا بہ خیال عظمت اس کوہاتھ لگانے میں علماء کا اختلاف ہے (تو قبور کا کیا ذکر ہے)۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اور ان کے رفقاء نے ا س کو مکروہ کہا کیونکہ یہ بدعت ہے اور کہتے ہیں کہ جب امام مالک رحمہ اللہ نے عطاء کو ایسا کرتے دیکھا تو ان سے روایت نہ کی۔ اور امام احمد اور ان کے موافقین نے اس کو جائز رکھا ہے کیونکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایسا کیا ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو چھونے اوربوسہ دینے کو سب نے بالاتفاق مکروہ جانا ہے اور اس سے منع کیا ہے۔ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استیصال مادۂ شرک اور تحقق توحید اور دین کو محض اللہ رب العالمین کے لیے خاص کرنے میں کس قدر بے نظیر کوشش سے کام لیا ہے۔ کسی صالح آدمی کی زندگی میں اس سے دعا منگوانے اور مرنے کے بعد کی حالت میں فرق: اور یہیں سے ظاہر ہو گیا کہ زندگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا اور کسی صالح شخص سے سوال کرنے میں اور وفات کے بعد یا غائب ہونے کی صورت میں ان سے سوال کرنے میں کتنا فرق ہے۔ وجہ یہ کہ زندگی میں تو ان کی پرستش نہیں کر سکتا تھا کیونکہ انبیاء و صالحین اپنی زندگی کے اندر اپنے حضور کسی کو مشرکانہ حرکات کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے بلکہ اس سے روکتے تھے اور اس پر سزا دیتے تھے جیسا کہ مسیح علیہ السلام کا قول شاہد ہے: ﴿مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ وَ کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًامَّا دُمْتُ فِیْہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ وَ اَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدٌ ﴾ (المائدۃ:۱۱۷) ’’تو نے مجھے حکم دیا تھا بس وہی میں نے انہیں کہہ سنایا تھا کہ اللہ جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے اسی کی عبادت کرو اور جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا
Flag Counter