دوسری وجہ، کفار کے معذور ہونے کا الزام:
تقدیر کی حجت سے لازم آتا ہے کہ ابلیس، فرعون، قوم نوح، قوم ہود اور ہر وہ شخص معذور ہو جسے اللہ تعالیٰ نے بد کاریوں کے باعث ہلاک کر دیا حالانکہ یہ (عقیدہ) ایسا کفر ہے جس پر تمام اہل مذاہب متفق ہیں ۔
تیسری وجہ، اجتماعِ ضدین:
حجیت تقدیر کے تسلیم کر لینے سے یہ لازم آتا ہے کہ اولیاء اللہ اور دشمنانِ خدا،مومنوں اور کافروں ، بہشتیوں اور دوزخیوں میں کچھ فرق نہ ہو، حالانکہ اللہ عزوجل نے جا بجا کلام اللہ میں ان کی باہمی تفریق کو واضح فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
﴿ وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَ الْبَصِیْروَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْروَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُوَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآئُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ ﴾ (فاطر:۱۹ تا ۲۲)
’’بینا اور نابینا،اندھیرا اور اجالا، سایہ اور دھوپ برابر نہیں ہو سکتے۔ نہ زندے اور مردے برابر ہو سکتے ہیں ۔‘‘
نیز ارشاد ہے:
﴿اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ ﴾ (ص :۳۸)
’’کیا ہم نیکوکار مومنوں کو فسادیوں جیسا کر دیں ، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا بنا دیں ۔‘‘
ایک جگہ فرمایا:
﴿اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوْا السَّیَِّٔاتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَائً مَحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ ﴾ (الجاثیۃ: ۲۱)
|