چوتھا رسالہ:
مسائل نیت
استفتاء:
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے بزمانہ قیام دیار مصریہ۷۰۸ھ میں دریافت کیا گیا کہ:
ایک شخص بلند آواز سے نیت کرتا ہے اوریوں کہتا ہے: فلاں فلاں فرض پڑھنے کی نیت کرتا ہوں ۔ ( کبھی) کسی ایک خاص نماز کی تعیین کرتا ہے (اور) کبھی رکعات کی اس طرح گنتی کرنے لگتا ہے کہ دوسرے آدمی کو تشویش میں ڈال دیتا ہے۔ کوئی سمجھائے کہ یہ خدا اور رسول کا حکم نہیں ، تو جواب دیتا ہے کہ یہی تو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ (نیز) امام جہری قراء ت سے پڑھ رہا ہو تو پیچھے بلند آواز سے پڑھنے لگ جاتا ہے۔
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم وائمہ اربعہ وغیرہ میں کسی نے ایسا کیا ہے؟ جب ائمہ مسلمین و علمائے اسلام نے بھی نہیں کیا تو ان کی طرف یہ حکم منسوب کرنے والا کون سی تعزیر کا مستوجب ہے؟
نیز وہ کہتا ہے کہ ہر کوئی دین میں جس طرح چاہے کر سکتا ہے اور جو اس امر کا انکار کرے، وہ جاہل ہے۔
الجواب:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ تمام حمد و ثناء کا سزاوار خدائے رب العالمین ہی ہے۔ جہر بلفظ النیت نہ مشروع ہے، نہ علمائے اسلام سے منقول ہے، نہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے، نہ خلفائے راشدین،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، سلف صالحین اور ائمہ امت نے ایسا کیا ہے۔
|