کچھ پڑھتے ہیں ؟ فرمایا نہیں ! اوریہی قول صحیح ہے۔ کیونکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر سے پہلے کچھ نہیں پڑھتے تھے، نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء نماز اور حج وغیرہ عبادات میں تلفظ بالنیہ کرتے تھے، نہ تلفظ بالنیہ کا کسی کو حکم دیا ہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شاگردوں کو یہی تعلیم دی کہ نماز پڑھنے لگو تو تکبیرکہو اور خود بھی نماز کے لیے جب کھڑے ہوتے تو صرف تکبیر کہتے۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، فرمایا:
((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْتَتِحُ الصَّلوٰۃَ بَالتَّکْبِیْرِ وَالْقِرَأۃِ بِالْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔))
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو تکبیر سے اور قراء ت کو الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر سے پہلے نہ تلفظ بالنیہ کیا ہے نہ اور کچھ پڑھا ہے اور نہ کسی مسلمان کو اس کی تعلیم دی ہے۔ اور اگر زبان سے نیت کرنا مستحب ہوتا تو خود کرتے اور مسلمانوں کو بھی سکھاتے۔
تلبیہ حج سے پہلے کچھ کہنا ناجائز ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج میں احرام کا افتتاح تلبیہ سے کرتے اور اہل اسلام کے لیے بھی یہی مشروع فرمایا کہ آغاز حج میں تلبیہ کہیں اور ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہما سے فرمایا: حج کر اور شرط کر لے۔ کہہ:
((لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ وَمُحِلِّیْ حَیْثُ حَبَسْتِنِیْ۔))
’’حاضر ہوں خدایا حاضر ہوں ۔ جہاں رکاوٹ ہو جائے میرے لیے وہی احرام کھولنے کا مقام ہے۔‘‘
تو انہیں یہ حکم دیا تھا،کہ تلبیہ کے بعد شرط کرے لیکن کسی کے لیے تلبیہ سے پہلے کچھ بھی مشروع نہیں فرمایا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ
|