Maktaba Wahhabi

403 - 485
(( اَللّٰھُمَّ اِنِِّیْ اُرِیْدُ الْعُمْرَۃَ اَوِ الْحَجَّ اَوِ الْعُمْرَۃَ وَالْحَجَّ۔)) ’’خدایا! میں عمرہ یا حج یا عمرہ و حج( دونوں ) کا ارادہ کرتا ہوں ۔‘‘ نہ یوں کہنے کی ضرورت ہے کہ: ((فَیَسِّرْہُ عَلَیَّ وَتَقَبَّلْ مِنِّیْ۔)) ’’خدایا! اسے آسان فرمایے اور قبول کیجیے۔‘‘ نہ یہ کہے کہ: ((نَوَیْتَ الْحَجَّ اَوِ الْعُمْرَۃَ اَوْ نَوَیْتُھَا جَمِیْعاً۔)) ’’میں نے حج یا عمرہ یا دونوں کی نیت کی۔‘‘ نہ ’’اَحرَمْتُ لِلّٰہِ‘‘ میں نے رضائے الٰہی کی غرض سے احرام باندھا وغیرہ عبارتیں پڑھنے کی ضرورت ہے ، اور نہ تلبیہ سے پہلے اور کچھ کہنے کی ضرورت ہے،بلکہ حج میں تلبیہ ایسے ہے جیسے نماز میں تکبیرہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے تھے: ((فُلَانٌ اَھَلَّ بِالْحَجِّ اَھَلَّ بِالْعُمْرَۃِ وَاَھَلَّ بِھِمَا۔)) ’’فلاں شخص نے حج و عمرہ یا دونوں کے لیے اہلال یعنی تلبیہ کہا۔‘‘ جیسا کہ کہا جاتا ہے کَبَّرَ للصَّلٰوۃِ ’’نماز کے لیے تکبیر کہی‘‘ بلند آواز سے تلبیہ کرنے کو اہلال کہتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تلبیہ میں جو یہ کہتے تھے: لَبَّیْکَ عُمْرَۃ وَحَجًّا ’’عمرہ و حج کے لیے حاضر ہوں ‘‘ تو تلبیہ کے بعد ارادۂ فعل( حج) کا نام لیتے تھے، پہلے نہیں اور لوگوں نے جو تکبیر و تلبیہ سے پہلے اور طہارت و جملہ عبادات میں نیت کے الفاظ گھڑ رکھے ہیں ، سراسر بدعت و غیر مشروع ہیں ، اور عبادت مشروعہ میں خود ساختہ اضافے جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروع نہیں فرمایا بلکہ عبادات میں اس کے ترک پر مداومت کی ہے، انہیں کرنا اور ان پر مداومت کرنا دو وجہ سے بدعت و ضلالت ہے۔ اوّل بلحاظِ اعتقادِ معتقد کہ یہ مشروع و مستحب ہے، اس کا کرنا نہ کرنے سے بہتر ہے، باوجود یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یقینا
Flag Counter